ہماری جلد (Skin) ہماری صحت کا آئینہ ہے۔ اس سے ہی صحت کے درست ہونے کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ سرخ گال، نرم چمک دار اور صاف شفاف جلد ہماری صحت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جلد سے انسانی شخصیت کا وقار، چمک دمک اور سنگھار کا گہرا تعلق ہے۔ میلی، پژمردہ، جھریوں بھری جلد صحت و توانائی کی کمی کی کہانی بیان کرتی ہے۔ خاص طور پر چہرہ کی جلد کا ہماری صحت سے بہت گہرا تعلق ہے۔ طب و صحت کے ماہرین مریض کے چہرے کی رنگت دیکھ کر مرض کی نوعیت اور شدت کا اندازہ کر لیتے ہیں۔ یہ محاورہ عام طور پر بولا جاتا ہے کہ مریض کی رنگت زرد پڑ گئی ہے۔ جلد بعض خاص علامت کو ظاہر کرتی ہے مثلاً اس کا پیلا پن، نیل گوں یا سفید ہو جانا حالت مرض کو بیان کرتا ہے۔ بوڑھے لوگوں میں چہرے اور ہاتھوں پر جھریاں پڑ جاتی ہیں جو ان کے بڑھاپے کو ظاہر کرتی ہیں۔ جلد اور رنگت کی ساخت سے عمر کا اندازہ لگانا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ چہرے کی جلد کے نکھار کے لئے ہر دور میں جتن ہوئے ہیں۔ سنگھار کا مقصد چہرے کی جلد اور کشش میں اضافہ ہے۔ ہر شخص کی آرزو ہوتی ہے کہ وہ چہرے کی جلد نکھارے اور حسن و کشش کو محفوظ رکھے۔ جلد صحت مند، خوبصورت اور نکھار والی ہو تو عمر کا بھی اندازہ نہیں ہوتا بلکہ انسان اپنی عمر سے بھی کم عمر نظر آتا ہے۔ جو لوگ جلد کی حفاظت نہیں کرتے وہ حسن و دلکشی سے محروم ہو جاتے ہیں۔ دنیا کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک امریکہ میں عوام کی بہت بڑی اکثریت سب سے زیادہ جلد کی آرائش و زیبائش کی طرف توجہ دیتی ہے مگر وہ اس لئے ناکام ہیں کہ وہ فطری طرز اختیار کرنے کی بجائے مصنوعی طریقوں سے حسن و کشش حاصل کرنے کے لیے فوڈ اسکن اور کریموں کا استعمال کرتے ہیں۔ جلد ہمارے جسم کی کھال ہے، جسے جسم کا غلاف بھی کہا جا سکتا ہے جو جسم کا سب سے بڑا عضو ہے۔ جس کا رقبہ 17 مربع فٹ اور وزن تقریباً 5سے 6 پونڈ تک ہوتا ہے۔ یہ پتلی ہونے کے سبب بہت ہلکی لگتی ہے۔ لیکن یہ ایک ایسی مستحکم دیوار ہے جو ہمیں بقیہ دنیا سے الگ رکھتی ہے۔ یہ ایک بند تھیلا ہے جو ان رسوں اور مادوں سے بھرا پڑا ہے جس سے ہماری ذات کی تشکیل ہوتی ہے۔ ہم اسے جسم کی حفاظتی خندق کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ جلد کا سب سے اہم کام جسم کے قلعہ میں سیال مادوں کا تحفظ اور بیرونی مضر اشیاء کو اندر جانے سے روکنا ہے۔ یہ کیڑوں، زہروں اور جراثیم کو اندر داخل ہونے سے روکتی ہے اور جسم کے پانی کو کنٹرول کرتی ہے۔ یہ جسم کی بہت حساس سرحد ہے۔ اس کے نیچے انتہائی پیچیدہ اعصابی نظام کام کرتا ہے جو دبائو، درد، سردی اور گرمی کی خبر دماغ کو پہنچاتا ہے۔ ناخن اور بال بھی اس کا حصہ ہیں۔ ہمارے بال ہماری جلد میں پوشید چھوٹی چھوٹی فیکٹریوں کی پیداوار ہیں۔ جنہیں ہم اصطلاحاً بالوں کے غدود کہہ سکتے ہیں اور ہر غدود ایک بال تیار کرتا ہے۔ آپ اپنے ہاتھ کی پشت پر اُگے ہوئے بالوں کے سروں کو بس ذرا چھو لیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ کس قدر حساس ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر بال کی جڑ میں کئی نازک اعصابی سرے موجود ہیں۔ بالوں کی جڑوں میں بعض غدود روغنی ہوتے ہیں جس سے بال چکنے رہتے ہیں۔ یہ روغن انہی کے ذریعے جب جلد پر آتا ہے تو جلد چکنی ہو جاتی ہے۔ جلد کا ایک اہم کام چھونے کا احساس فراہم کرنا ہے۔ جلد میں پوشیدہ اعصاب جس کے ننھے ننھے سرے مختلف قسم کے پیغامات ہمارے دماغ کو پہنچاتے ہیں۔ اس طرح اس کا ایک تیسرا اہم کام جسم کے درجہ حرارت کو کنٹرول کرنا ہے۔ جلد یہ کام اپنی نچلی سطح میں واقع خون کی رگوں اور نالیوں کو حسب ضرورت پھیلا کر یا انہیں سکیڑ کر انجام دیتی ہے۔ ہماری جلد کے اندر چربی کی تہہ کے نیچے رگوں، نالیوں اور عروق شعریہ کا وسیع جال ہے۔ یہ ایک نظام کے ذریعے سے خون کی ایک بڑی مقدار جلد کے نیچے بوقت ضرورت گشت کر کے جلد کی سطح کو سرد رکھتی ہے۔
جب یہ نظام سکڑتا ہے تو پھر پوری جلد میں دو اونس خون فی منٹ کے حساب سے گردش کرتا ہے اور رگوں کے پھیلنے کی صورت میں گردش میں سو گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ فطرت نے ضرورت سے زیادہ خون کو سرد کرنے کے لیے بھی نظام وضع کر رکھا ہے۔ جس کے تحت جب گرم خون رگوں کے پھندے میں رُکتا ہے تو جلد پر آنے والا پسینہ ہوا میں تحلیل اور ٹھنڈا ہو کر جلد کو سرد کر دیتا ہے۔ اس سارے نظام کو دماغ میں موجود ایک مرکز جو مٹر کے دانے برابر ہے کنٹرول کرتا ہے۔ یہ لوتھڑا تین اعصابی مراکز کو کنٹرول کرتا ہے۔ ان میں سے ایک حرارت کو محسوس کرتا ہے۔ دوسرا حرارت کا اخراج کرتا اور تیسرا حرارت میں اضافہ کرتا ہے۔ حرارت کی کمی یا اخراج کا مرکز جب جلد کو پھیلنے کا حکم دیتا ہے تو اس کی وجہ سے رگیں پھیل جاتی ہیں۔ پسینہ خارج ہونے لگتا ہے اور اعصابی تنائو میں کمی ہو جاتی ہے۔ جب یہ مرکز رگوں کو سکڑنے کا حکم دیتا ہے تو کپکپاہٹ شروع ہو کر پسینہ ختم ہو جاتا ہے اور استحالہ جسم Metabolism میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
ہماری جلد تین پرتوں پر مشتمل ہے۔ بیرونی، حقیقی اور اندرونی۔ بیرونی سطح پر تین پرتیں ہوتی ہیں‘ اوپری کھردری پرت جس کے مردہ خلیات جھڑتے رہتے ہیں اور نئے بنتے رہتے ہیں۔ اس کے نیچے حقیقی جلد ہوتی ہے جو مضبوط ریشوں اور زندہ خلیات پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس میں خون کی لاکھوں باریک رگیں، لمفاوی غدود یا اعصابی سرے ہوتے ہیں۔ پسینے کے غدود کی تعداد دو سے تین تک ہوتی ہے۔ ان کی سب سے زیادہ تعداد بغل، ہاتھوں، پیروں اور پیشانی پر ہوتی ہے۔ یہ غدود خون کی باریک نالیوں سے پانی، نمک اور ردی مواد کھینچ کر مسامات کے راستے بیرونی سطح پر جمع کرتے ہیں جسے ہم پسینہ کہتے ہیں۔ گرمی میں یہی پسینہ ہوا سے خشک ہو کر ٹھنڈک کا احساس دیتا ہے اور اس طرح جسم کا درجہ حرارت خطرناک حد تک نہیں پہنچتا۔
جلد ایک انتہائی حساس عضو ہے‘ اس کی حفاظت ہمارے لئے ضروری ہے۔ اس سے نہ صرف صحت کی بقا ہے بلکہ انسانی شخصیت کی وجاہت اور چمک دمک کا بھی تعلق ہے۔ میلی کچیلی، جھریوں سے بھرپور جلد صحت و توانائی کی کمی کی داستان بیان کرتی ہے۔ خصوصاً چہرے کی جلد کا انسانی شخصیت سے بہت گہرا تعلق ہے۔ اس لئے انسان ہمیشہ چہرے کی جلد پر متوجہ رہا ہے۔ سنگھار کا مقصد چہرے کی جلد کو شاداب اور خوبصورت بنانا ہے۔ چہرہ کی خوبصورت جلد انسان کو کم عمر ظاہر کرتی ہے۔ جو لوگ جلد کی حفاظت نہیں کرتے وہ حسن و کشش سے محروم ہو جاتے ہیں۔ جلد کی حفاظت کا پہلا اصول یہ ہے کہ آپ فطرت کے قریب زندگی گزارئیے۔ کھلی اور آزاد فضا میں ہلکی پھلکی ورزش یا سیر کریں۔
متوازن غذا استعمال کریں‘ فطرت کی عطا کردہ نعمتوں سے فائدہ اٹھائیے۔ دودھ، پھل اور سبزیاں اپنی غذائوں میں زیادہ رکھیں۔ تمباکو، نشہ اور اشیائ، روغنی اور چکنائی دار اشیاء کا استعمال توازن سے کریں۔ جلد کو کم سے کم چھیڑا جائے اور اس کی صفائی کا اہتمام کیا جائے۔ آج کل صابن کا استعمال لازمی خیال کیا جاتا ہے حالانکہ یہ مضر ہے، خصوصاً خوشبودار اور تیز صابن جن میں کیمیائی اجزاء ہوتے ہیں۔ لوگ جھاگ بنا کر دیر تک ملتے رہتے ہیں جس سے جھاگ جلد میں پہنچ کر نقصان کا سبب ہوتی ہے۔ مناسب راہ عمل یہ ہے کہ صابن لگا کر منہ دھویا جائے، رگڑا نہ جائے۔ اگر جلد خشک ہے تو گلیسرین کا استعمال کیا جائے۔ پانچ وقت وضو میں منہ دھونا مفید ہے۔
آج کل بازار میں جلدی غذا/ اسکن فوڈ کے نام سے ادویہ ملتی ہیں لوگ خیال کرتے ہیں۔ اس سے جلد کو غذا ملتی ہے ایسا بالکل غلط ہے بلکہ ہم جو غذا کھاتے ہیں اس سے جلد کو غذا ملتی ہے۔ جلد کو صحت مند رکھنے کے لیے شہد، دودھ، پھل، سبزیاں، معدنی اجزاء اور حیاتین کا استعمال کریں۔ کیپسولوں اور گولیوں میں بند غذا سے جلد کی حفاظت نہیں ہوتی بلکہ قدرتی غذاء کا سہارا لیں۔ فائبر (Fiber) ریشہ دار چیزیں آنتوں کو صاف کرتی ہیں اور گندہ فاسد خون صاف کرتی ہیں۔ جس سے جلد صاف اور شفاف ہوتی ہے خواتین کی طرح مردوں کو بھی جلد کی حفاظت کرنی چاہیے۔ استرے یا بلیڈ کے استعمال سے اوپری جلد اُترنے لگتی ہے۔ اگرچہ داڑھی صاف کرنے کا رواج زمانہ قدیم سے ہے مگر قدیم مصری خاص قسم کی کریم استعمال کرتے تھے۔ اگر جلد سکڑی یا خشک ہو تو یہ موسم کا اثر ہوتا ہے۔ موسمی شدت خصوصاً شدید سردی اور گرمی میں ایسا ہو جاتا ہے۔ دھوپ جلد کے لیے مفید ہے مگر ایک خاص حد تک۔ ضرورت سے زیادہ دھوپ میں بیٹھنا مضر جلد ہے۔ رنگت اور رعنائی کو ختم کرتی ہے، اندرونی ریشے لچک ختم کر دیتے ہیں۔ زیر جلد خون کی رگوں پر منفی اثر ہوتا ہے۔ گرم ممالک کے لوگ زیادہ دھوپ سے محفوظ رہنے کے لیے چہروں پر کپڑے ڈالے رہتے ہیں اور چہرے گرم تھپیڑوں سے محفوظ رہتے ہیں۔ جب ہوا میں نمی کا تناسب کم ہو یعنی جن دنوں خشک سردی ہوتی ہے تو جلد خشک اور جب بارش کے بعد ہوا میں نمی کا تناسب زیادہ ہو تو جلد چکنی ہو جاتی ہے۔ ہماری جلد کے اندر کچھ غدود تیل بناتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں جلد کو پھٹنے سے بچانے کے لیے بنایا ہے، جن کی جلد چکنی ہو اُن کو ان غدودوں کی سرگرمی کو کم کرنے کے لیے فالج سے مشورہ کرنا چاہیے۔ اگر ہم مندرجہ بالا تدابیر پر عمل کریں تو اپنی جلد جو آئینہ صحت بھی ہے اسے درست اور صحت مند رکھ کر پورے جسم کو صحت و توانا رکھ سکتے ہیں۔
جب یہ نظام سکڑتا ہے تو پھر پوری جلد میں دو اونس خون فی منٹ کے حساب سے گردش کرتا ہے اور رگوں کے پھیلنے کی صورت میں گردش میں سو گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ فطرت نے ضرورت سے زیادہ خون کو سرد کرنے کے لیے بھی نظام وضع کر رکھا ہے۔ جس کے تحت جب گرم خون رگوں کے پھندے میں رُکتا ہے تو جلد پر آنے والا پسینہ ہوا میں تحلیل اور ٹھنڈا ہو کر جلد کو سرد کر دیتا ہے۔ اس سارے نظام کو دماغ میں موجود ایک مرکز جو مٹر کے دانے برابر ہے کنٹرول کرتا ہے۔ یہ لوتھڑا تین اعصابی مراکز کو کنٹرول کرتا ہے۔ ان میں سے ایک حرارت کو محسوس کرتا ہے۔ دوسرا حرارت کا اخراج کرتا اور تیسرا حرارت میں اضافہ کرتا ہے۔ حرارت کی کمی یا اخراج کا مرکز جب جلد کو پھیلنے کا حکم دیتا ہے تو اس کی وجہ سے رگیں پھیل جاتی ہیں۔ پسینہ خارج ہونے لگتا ہے اور اعصابی تنائو میں کمی ہو جاتی ہے۔ جب یہ مرکز رگوں کو سکڑنے کا حکم دیتا ہے تو کپکپاہٹ شروع ہو کر پسینہ ختم ہو جاتا ہے اور استحالہ جسم Metabolism میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
ہماری جلد تین پرتوں پر مشتمل ہے۔ بیرونی، حقیقی اور اندرونی۔ بیرونی سطح پر تین پرتیں ہوتی ہیں‘ اوپری کھردری پرت جس کے مردہ خلیات جھڑتے رہتے ہیں اور نئے بنتے رہتے ہیں۔ اس کے نیچے حقیقی جلد ہوتی ہے جو مضبوط ریشوں اور زندہ خلیات پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس میں خون کی لاکھوں باریک رگیں، لمفاوی غدود یا اعصابی سرے ہوتے ہیں۔ پسینے کے غدود کی تعداد دو سے تین تک ہوتی ہے۔ ان کی سب سے زیادہ تعداد بغل، ہاتھوں، پیروں اور پیشانی پر ہوتی ہے۔ یہ غدود خون کی باریک نالیوں سے پانی، نمک اور ردی مواد کھینچ کر مسامات کے راستے بیرونی سطح پر جمع کرتے ہیں جسے ہم پسینہ کہتے ہیں۔ گرمی میں یہی پسینہ ہوا سے خشک ہو کر ٹھنڈک کا احساس دیتا ہے اور اس طرح جسم کا درجہ حرارت خطرناک حد تک نہیں پہنچتا۔
جلد ایک انتہائی حساس عضو ہے‘ اس کی حفاظت ہمارے لئے ضروری ہے۔ اس سے نہ صرف صحت کی بقا ہے بلکہ انسانی شخصیت کی وجاہت اور چمک دمک کا بھی تعلق ہے۔ میلی کچیلی، جھریوں سے بھرپور جلد صحت و توانائی کی کمی کی داستان بیان کرتی ہے۔ خصوصاً چہرے کی جلد کا انسانی شخصیت سے بہت گہرا تعلق ہے۔ اس لئے انسان ہمیشہ چہرے کی جلد پر متوجہ رہا ہے۔ سنگھار کا مقصد چہرے کی جلد کو شاداب اور خوبصورت بنانا ہے۔ چہرہ کی خوبصورت جلد انسان کو کم عمر ظاہر کرتی ہے۔ جو لوگ جلد کی حفاظت نہیں کرتے وہ حسن و کشش سے محروم ہو جاتے ہیں۔ جلد کی حفاظت کا پہلا اصول یہ ہے کہ آپ فطرت کے قریب زندگی گزارئیے۔ کھلی اور آزاد فضا میں ہلکی پھلکی ورزش یا سیر کریں۔
متوازن غذا استعمال کریں‘ فطرت کی عطا کردہ نعمتوں سے فائدہ اٹھائیے۔ دودھ، پھل اور سبزیاں اپنی غذائوں میں زیادہ رکھیں۔ تمباکو، نشہ اور اشیائ، روغنی اور چکنائی دار اشیاء کا استعمال توازن سے کریں۔ جلد کو کم سے کم چھیڑا جائے اور اس کی صفائی کا اہتمام کیا جائے۔ آج کل صابن کا استعمال لازمی خیال کیا جاتا ہے حالانکہ یہ مضر ہے، خصوصاً خوشبودار اور تیز صابن جن میں کیمیائی اجزاء ہوتے ہیں۔ لوگ جھاگ بنا کر دیر تک ملتے رہتے ہیں جس سے جھاگ جلد میں پہنچ کر نقصان کا سبب ہوتی ہے۔ مناسب راہ عمل یہ ہے کہ صابن لگا کر منہ دھویا جائے، رگڑا نہ جائے۔ اگر جلد خشک ہے تو گلیسرین کا استعمال کیا جائے۔ پانچ وقت وضو میں منہ دھونا مفید ہے۔
آج کل بازار میں جلدی غذا/ اسکن فوڈ کے نام سے ادویہ ملتی ہیں لوگ خیال کرتے ہیں۔ اس سے جلد کو غذا ملتی ہے ایسا بالکل غلط ہے بلکہ ہم جو غذا کھاتے ہیں اس سے جلد کو غذا ملتی ہے۔ جلد کو صحت مند رکھنے کے لیے شہد، دودھ، پھل، سبزیاں، معدنی اجزاء اور حیاتین کا استعمال کریں۔ کیپسولوں اور گولیوں میں بند غذا سے جلد کی حفاظت نہیں ہوتی بلکہ قدرتی غذاء کا سہارا لیں۔ فائبر (Fiber) ریشہ دار چیزیں آنتوں کو صاف کرتی ہیں اور گندہ فاسد خون صاف کرتی ہیں۔ جس سے جلد صاف اور شفاف ہوتی ہے خواتین کی طرح مردوں کو بھی جلد کی حفاظت کرنی چاہیے۔ استرے یا بلیڈ کے استعمال سے اوپری جلد اُترنے لگتی ہے۔ اگرچہ داڑھی صاف کرنے کا رواج زمانہ قدیم سے ہے مگر قدیم مصری خاص قسم کی کریم استعمال کرتے تھے۔ اگر جلد سکڑی یا خشک ہو تو یہ موسم کا اثر ہوتا ہے۔ موسمی شدت خصوصاً شدید سردی اور گرمی میں ایسا ہو جاتا ہے۔ دھوپ جلد کے لیے مفید ہے مگر ایک خاص حد تک۔ ضرورت سے زیادہ دھوپ میں بیٹھنا مضر جلد ہے۔ رنگت اور رعنائی کو ختم کرتی ہے، اندرونی ریشے لچک ختم کر دیتے ہیں۔ زیر جلد خون کی رگوں پر منفی اثر ہوتا ہے۔ گرم ممالک کے لوگ زیادہ دھوپ سے محفوظ رہنے کے لیے چہروں پر کپڑے ڈالے رہتے ہیں اور چہرے گرم تھپیڑوں سے محفوظ رہتے ہیں۔ جب ہوا میں نمی کا تناسب کم ہو یعنی جن دنوں خشک سردی ہوتی ہے تو جلد خشک اور جب بارش کے بعد ہوا میں نمی کا تناسب زیادہ ہو تو جلد چکنی ہو جاتی ہے۔ ہماری جلد کے اندر کچھ غدود تیل بناتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں جلد کو پھٹنے سے بچانے کے لیے بنایا ہے، جن کی جلد چکنی ہو اُن کو ان غدودوں کی سرگرمی کو کم کرنے کے لیے فالج سے مشورہ کرنا چاہیے۔ اگر ہم مندرجہ بالا تدابیر پر عمل کریں تو اپنی جلد جو آئینہ صحت بھی ہے اسے درست اور صحت مند رکھ کر پورے جسم کو صحت و توانا رکھ سکتے ہیں۔
.
تحریر: حکیم راحت نسیم سوہدروی
No comments:
Post a Comment