Friday, 9 December 2016

مسواک ... دانتوں کی صحت کی ضامن

’’صحت اَسنان صحت انسان‘‘ یعنی جس کے دانت اچھے اس کی صحت اچھی۔
اگر دانت درست نہ ہوں تو اعضائے جسم کی درماندگی وبوسیدگی کا باعث بنتی ہے جس سے جسمانی صحت متاثر ہوتی ہے۔ صاف ستھرے‘ چمکیلے اور سفید دانت نہ صرف خوبصورتی وتندرستی کا باعث ہوتے ہیں بلکہ جسم کی جازبیت اور صحت جسم میں اضافہ کرتے ہیں۔ دانتوں کو مضبوط بنانے اور نظام ہضم کے فساد سے بچنے کے لیے دانتوں کو باقاعدگی سے صاف کرنا بہت ضروری ہے۔ اگر دانتوں کی مناسب صفائی کا خیال نہ رکھا جائے تو دانت بوسیدہ اور مسوڑھے خراب ہو جاتے ہیں۔ اس طرح یہ خرابی مسوڑھوں میں پیپ اور خون کی تراوش کا باعث بنتی ہے۔ اس کے نتیجے میں منہ سے بدبو اور پھر بدبو دار سانس انسان کو کسی مجلس میں بیٹھنے کے قابل نہیں چھوڑتا۔ ان حالات میں جو غذا لی جائے وہ دانتوں اور مسوڑھوں کی خراب رطوبات کے ساتھ معدہ میں جا کر فساد ہضم کا سبب بنتی ہے جس سے کئی دوسرے اعضاء متاثر ہوتے ہیں اور صحت ختم ہوتی اور جسم امراض کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل ذرائع ابلاغ پر دانتوں کی صفائی کے لیے مختلف قسم کے ٹوتھ پیسٹ بڑے دعووں کے ساتھ مشہوری کے لیے پیش کیے جاتے ہیں۔ کسی میں فلورائیڈ شامل ہے تو کسی میں لونگ کا تیل‘ ان کو خوشبودار بنانے کے لیے مختلف نباتات سے حاصل کردہ ست (Essence) بھی شامل کیے جاتے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا (ٹی وی چینلز) آج کے دور کا اہم ذریعہ ابلاغ ہے۔
عوام کی ایک بڑی تعداد اس سے متاثر ہوتی ہے‘ ہو سکتا ہے کہ ان ٹوتھ پیسٹوں کے کچھ فوائد بھی ہوں مگر یہ فطرت کی اشیاء کا مصنوعی متبادل تو ہوتے ہیں لیکن ان خصوصیات کے حامل نہیں ہوتے۔ بازار میں ملنے والے مختلف قسم کے برانڈ کاروباری اور مصنوعی ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ٹوتھ پیسٹ کے بڑھتے ہوئے استعمال کے باوجود دانتوں کے امراض بڑھ رہے ہیں۔ جوانی اور بڑھاپا ہی نہیں بچپن میں ہی دانت نکلوائے جا رہے ہیں۔ دانتوں  پر لاکھ اور دانتوں میں سوراخ اس کے علاوہ ہیں۔ سائنسدانوں کا یہ کہنا ہے کہ انسان کے دانت چھوٹے ہو رہے ہیں مگر یہ عمل سست رفتاری سے واقع ہے۔ نوے ہزار سال قبل کے انسان کے دانت آج کے انسان کے مقابل دوگنا تھے۔ امریکہ کی مشی گن یونیورسٹی میں کئی سالوں سے دانتوں  پر تحقیق جاری ہے ان تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ پہلے کا انسان موٹا اناج کھاتا اور جفاکش تھا مگر اب جدید مشینی زندگی کی سہولتوں کے باعث باریک پسی ہوئی اشیاء ملتی ہیں۔ انسان کی صحت کا معیار گر رہا ہے۔ پہلے لوگ گنا دانتوں سے چھیل کر چوسا کرتے تھے اب گنڈیریاں آگئیں اور کون گنا چوسنے کی زحمت کرے؟ اس لیے اب گنے کے رس پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے ہمارے دانت مسوڑھوں میں نہیں رہتے بلکہ مسوڑھے بھی کمزر ہو رہے ہیں۔ جسم کو توانائی غذا سے ملتی ہے۔ اگر دانت صحت مند نہ ہوں تو غذا صحیح طور  پر ہضم ہو گی اور نہ جسم تندرست رہے گا۔
دانتوں کے امراض سے بچنے کے لیے مسواک کا استعمال ناگزیر ہے۔ فطرت انسانی صحت کے لیے بہت فیاض ہے۔ دانتوں کے لیے مسواک ہمیشہ دستیاب رہتی ہے۔ مسواک کے نرم ریشے ہی دانتوں میں موجود جراثیم کش مادہ دانتوں اور مسوڑھوں کے امراض ختم کر سکتا ہے۔ احادیث مبارکہ میں بھی دانتوں کی صحت کے لیے مسواک پر زور دیا گیا ہے۔ یہ سنت بھی ہے۔ علماء کے نزدیک اس کا ثواب بھی ہے اور فوائد بھی۔ تقریباً سات صدیاں قبل سے مسواک کا استعمال ہو رہا ہے۔ اہل عرب اسے بہت مفید خیال کرتے ہیں مگر جدید دور نے جہاں انسان کو آسائشوں کا عادی بنا دیا ہے وہاں وہ اب مسواک کی بجائے ٹوتھ پیسٹ کا عادی بن رہا ہے۔ اسلامی ممالک میں نماز جمعہ کے بعد مساجد کے باہر مسواک فروخت ہوتی ہے لیکن اس کا استعمال کم ہو گیا ہے۔ مگر آسانی سے مل جاتی ہے۔ یہ ایک پنسل کے سائز کی لکڑی نما ہوتی ہے۔

مسواک کی اقسام: 
نیم‘ کیکر‘ پھلاہی‘ زیتون اور سکھ چین۔ مگر ہمارے ہاں پیلو‘ کیکر اور نیم کی لکڑی سے بنی مسواک زیادہ مقبول ہے۔ پیلو میں موجود ٹینک ایسڈ مسوڑھوں میں موجود ردی رطوبات کو دور کر کے انہیں خشک کرتا ہے۔ اس میں موجود فلورائیڈ دانتوں کے انحطاط کو روکنے اور ان کے چمکانے میں کارآمد ہے۔ اس میں موجود وٹامن سی دانتوں کو صحت مند رکھتا اور کلورین جراثیم کش اثرات رکھتا ہے۔ کیکر کی مسواک دانتوں کو مضبوط‘ صاف کرتی ہے۔ منہ سے بدبو ختم کرتی ہے اور نظر کو فائدہ دیتی ہے۔ نیم کی مسواک کڑواہٹ کے باعث معروف ہے تا ہم منہ سے ردی رطوبات کا اخراج کرتی ہے جس سے منہ صاف اور دانت چمکدار ہوتے ہیں اور دانتوں کے اندر پھنسے غذائی اجزاء نکالتی ہے۔ جراثیم کش ہے۔
مسواک کے استعمال سے زبان میں فصاحت اور بلاغت جیسی خوبی پیدا ہوتی ہے۔ مسواک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک پانی بھرے گلاس میں اس کا سرا بھگو دیں کچھ دیر بعد جب وہ نرم پڑ جائے تو دانتوں سے گیلے حصے کو کچل چھیل کر ٹوتھ برش کی طرح بنا لیں۔ پھر اس حصے سے دانتوں کو اچھی طرح رگڑیں۔ پانچ منٹ تک مسواک کرنا کافی ہے۔ ہر چوبیس گھنٹے بعد مسواک کا وہ حصہ کاٹ کر باقی ڈنڈی سے الگ کر دیں جو استعمال کیا گیا ہے۔
خشک مسواک استعمال نہ کریں کیونکہ یہ مسوڑھوں کو زخمی کر سکتی ہے۔ نیز اپنی جراثیم کش (دافع عفونیت) خصوصیت کھو دیتی ہے۔

مسواک کی خصوصیات: 
  • یہ جراثیم کش (انٹی بایوٹیک) ہے۔
  • یہ دافع عفونیت (انٹی سیپٹک) ہے
  • دانتوں کو کیلشیم اور کلورین فراہم کرتی ہے۔
  • دانتوں کے درمیان موجود غذائی ریشے نکال دیتی ہے۔
  • منہ سے بدبو ختم کرتی ہے‘ مسوڑھوں کی حفاظت کرتی ہے۔
  • دانتوں کو چمک دار بناتی ہے۔ بھوک بڑھاتی اور نظام ہضم درست رکھتی ہے۔
.
تحریر: جناب حکیم راحت نسیم سوھدروی

No comments:

Post a Comment