Friday, 9 December 2016

ملٹھی ... ایک لا جواب دوا

ملٹھی طب میں صدیوں سے مختلف مقاصد کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ اسے پیٹ کے امراض خصوصاً معدے اور آنت کے زخم (السر) کے لیے بہت مفید خیال کیا جاتا ہے۔ یہ کھانسی کا بھی ایک آزمودہ روایتی علاج ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب موسم سرما  میں شدت کی سردی ہوتی ہے تو خشک اور سرد ہواؤں کی وجہ سے گلے میں خراش اور کھانسی ہونے لگتی ہے تو ملٹھی کا سفوف پان میں ملا کر اس کی پیک کو نگل لیا جاتا ہے۔ ملٹھی کا اصل جز گلائی کون کہلاتا ہے۔ جب کہ طب میں اس کا ست رُبّ کہلاتا ہے۔ اس لیے یہ ست رُبّ السوس کہلاتا ہے۔ کھانسی کے لیے یہ بہت مفید ہے‘ اس لیے یہ ست کھانسی کے شربت میں خوب استعمال ہوتا ہے۔ یہ حلق کو تر اور نرم کرتی اور بلغم کا اخراج کرتی ہے۔
ملٹھی کو عربی زبان میں اصل السوس‘ سندھی میں مٹھی کاٹھی یعنی میٹھی لکڑی‘ فارسی میں بیخ مہک جبکہ انگریزی میں لکورس (Licorice) کہا جاتا ہے۔ یہ ایک پودے کی جڑ ہے جو زمین میں گہرائی کے ساتھ ہوتی ہے۔ اس کا پودا چار فٹ تک بلند ہوتا ہے۔ جبکہ اس کے پھول نیلے رنگ کے ہوتے ہیں اور رومی آب وہوا کے خطے میں  پیدا ہوتا ہے۔ اس کی زرد رنگ جڑ شکر سے پچاس گنا زیادہ میٹھی ہوتی ہے۔ چین‘ روس اور بحیرہ روم کے ممالک میں اس کی کاشت طویل عرصے سے ہو رہی ہے۔ اسپین میں اس کا ست تیار کیا جاتا ہے جسے عمدہ خیال کیا جاتا ہے۔ اب فیصل آباد میں بھی اس کی کاشت ہو رہی ہے۔ یورپ‘ چین اور انگلستان میں بھی اس کا استعمال بہت زیادہ ہوتا ہے۔ ان ممالک میں ملٹھی کا سفوف دیگر ادویات کے ساتھ ملا کر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سے نہ صرف معدہ اور دانتوں کی سوزش اور زخم دور ہوتے ہیں بلکہ آنتوں کی حرکت تیز ہو کر قبض ختم ہوتی ہے۔ چین میں اس کا شمار بہت مؤثر نباتاتی اور ادویہ میں ہوتا ہے۔ ماہرین طب اسے گلے کی خراش اور کھانسی کے لیے استعمال کرتے آ رہے ہیں۔ چین کے شمالی علاقوں میں ملٹھی اور اس کے مرکبات کو مفید شباب آور ٹانک سمجھتے ہیں۔
طب یونانی میں ملٹھی کا استعمال صدیوں سے ہو رہا ہے۔ طب یونانی کے ماہرین اسے استعمال کرنے سے قبل چھیلنے کی ہدایت کرتے ہیں کیونکہ اس کے مطابق سانپ اس پر اپنا پھن رگڑتا ہے۔ اسے چھیل کر استعمال کرنے سے گویا اوپر کی چھال اتر جاتی ہے اور اس طرح اس کے زہر آلود ہونے کا خطرہ ٹل جاتا ہے۔ ملٹھی کا ذائقہ میٹھا بلکہ بہت میٹھا ہوتا ہے۔ اسے بہ طور مٹھاس زیادہ مقدار میں استعمال نہیں کرنا چاہیے‘ اس کی یہ مٹھاس گلیسرہیزین نامی جوہر کی وجہ سے ہے۔ جڑ میں یہ مٹھاس چھ سے آٹھ فیصد تک ہوتا ہے اور الگ کرنے پر سفید چمک دار سفوف کی صورت میں نکلتا ہے۔ اس سفوف میں کیلشیم اور گلیسرہیزک ایسڈ‘ پوٹاشیم اور نمک موجود ہوتا ہے۔ ملٹھی میں شکر‘ نشاستہ ۲۹ فیصد گوند پروٹین اور چکنائی کے علاوہ ٹے نین بھی ہوتا ہے جو زیادہ تر جڑ کی چھال میں ہوتا ہے۔ اس میں فراری تیل کے علاوہ زرد رنگین مادہ بھی ہوتا ہے۔
طب واطباء کے نزدیک ملٹھی مسکن‘ ملین یعنی سکون آور‘ قبض کشا اور پیشاب آور خصوصیت کی حامل ہے۔ کھانسی میں اس کا استعمال بہت مفید ہے۔ یہ بلغم کو اعتدال کے ساتھ پتلا کر کے اخراج کرتی ہے۔ عضلات پٹھوں کو مضبوط بناتی ہے اور حلق کی خشکی دور کر کے تر کرتی ہے۔ سینے سے بلغم کا اخراج کرتی ہے۔
کئی مغربی ممالک میں اسے گلے کی خراش اور کھانسی کے لیے السی کے ساتھ جوش دے کر بطور چائے پیا جاتا ہے۔ یورپ میں نباتاتی علاج کے معالج اسے آنتوں کی سوزش اور زخم کے ساتھ بطور پیشاب آور استعمال کرتے ہیں اور نزلی رطوبت کے اخراج کے لیے مفید خیال کرتے ہیں۔ لندن (انگلستان) کے معروف نباتاتی معالج ڈاکٹر میلون کا یہ نسخہ کھانسی کے لیے بہت شہرت رکھتا ہے۔
السی کے بیج        ۱۲ گرام
ملٹھی        ۲۵ گرام
عمدہ کشمش        ۱۲۰ گرام
اور تازہ پانی        ۲ لیٹر
تمام اجزاء پانی میں ڈال کر دھیمی آنچ پر ڈھک کر اتنا پکائیں کہ پانی کی مقدار نصف رہ جائے‘ اب اس میں اچھی قسم کا گڑ ۵۰۰ گرام شامل کر کے چھان کر قوام درست کر لیں۔ رات سونے سے قبل ایک پیالی گرم پانی میں یہ شربت چار چمچے ملا کر تھوڑا تھوڑا چسکی لے کر پئیں۔ کھانسی کی شکایت رفع ہو جائے گی۔
ایک امریکی نباتاتی معالج ڈاکٹر جیمس ڈیوک کے مطابق ملٹھی میں معدے اور آنتوں کے زخم ٹھیک کرنے کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ سرطان دور کرنے کی بھی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ امریکہ کے سرطان پر تحقیقی ادارے بھی ملٹھی کو اپنی تحقیق میں شامل کر رکھا ہے۔ اب تک کی تحقیق کے مطابق اس کا اہم جز ٹرائی رٹر پناڈز (Reritependids) سرطان کا مفید علاج ثابت ہو سکتا ہے۔ کیونکہ یہ جسم میں پروسٹاگلینڈین کی تیاری کا سلسلہ روک دیتے ہیں۔ پروسٹاگلینڈین ہارمون جیسے شحیمی الیڈ (Fatty Acid) ہوتے ہیں جو سرطانی خلیات بننے کا عمل تیز کر دیتے ہیں۔ ملٹھی کا جز جسم پر سرطان کا سبب بننے والے اجزا کا حملہ روک سکتے ہیں۔ تحقیق کے نتیجے میں ان اجزاء کی ان خاصیتوں کا اندازہ ہوا ہے۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملٹھی کا استعمال کم مقدار میں کرنا چاہیے۔ خصوصا بلڈ پریشر کے مریضوں کو اس کے استعمال سے قبل اپنے معالج سے مشورہ کرنا چاہیے۔ کیونکہ اس کا زیادہ استعمال بلڈ پریشر اور قلب کے امراض میں مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ کیونکہ ملٹھی میں تحقیق کاروں کے مطابق کیمیائی جوہرگلیسرہیزن کی زیادتی سے جسم میں پوٹاشیم کی مقدار کم اور سوڈیم کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ اس لیے پوٹاشیم کم ہونے سے بلڈ پریشر میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
استاد محترم شہید پاکستان حکیم محمد سعید معدے اور آنتوں کے زخم کے لیے اصل السوس سائیدہ ہمراہ شربت بادیان دو چمچ صبح نہار منہ استعمال کراتے تھے اور اس کے مفید نتائج سامنے آئے۔ اس کے بعد اسے سوسی کے مرکب کے نام سے ہمدرد نے بنایا ہے جو شربت بادیان کے ساتھ صبح نہار منہ استعمال سے فائدہ مند ہے۔
.
تحریر:  جناب حکیم راحت نسیم سوھدروی

No comments:

Post a Comment