ذہانت قدرتی ہوتی ہے۔ اگر دماغ صحت مند اور کسی قسم کی دماغی پیچیدگی نہ ہو تو دماغ کی کارکردگی بڑھ جاتی ہے۔ البتہ علم وہنر سے اسے مزید چمکایا جا سکتا ہے۔ بلا شک ذہانت قدرتی اور پیدائشی ہوتی ہے اور اسے عطیہ خداوندی قرار دینا چاہیے۔ تا ہم اس کا صحت مند جسم اور غذا سے گہرا تعلق ہے۔ اسی بنا پر کہا جاتا ہے کہ صحت مند جسم ہی صحت مند دماغ کا مالک ہوتا ہے۔ ایسا ممکن نہیں کہ صحت سے عاری شخص صحت مند دماغ کا مالک ہو۔ صحت مند دماغ اور صحت مند جسم کے لیے صحیح غذا کا ہونا ضروری ہے۔ اگر غذا صحیح اور متوازن نہ ہو تو انسان دماغی اور جسمانی طور پر کمزور ہوجاتا ہے جس کے اثرات ذہانت پر بھی ہوتے ہیں اور سارا جسمانی نظام متاثر ہوتا ہے۔
آج کے دور میں طرز زندگی اور غذائی عادات کی تبدیلیوں نے انسانی صحت اور دماغ کو متاثر کر دیا ہے۔ جس کے نتیجے میں ذہنی استعداد کار یا ذہانت متاثر ہو رہی ہے۔ نسیان یا یادداشت میں کمی جیسے عوارضات بڑھ رہے ہیں۔ طب وصحت کے ماہرین کہتے ہیں کہ بعض غذائیں دماغی قوتوں کو توانا رکھتی ہیں جس سے ذہانت میں اضافہ ہوتا ہے۔ وہ مائیں جو اپنے بچوں کو ایسی مفید غذائیں دیتی ہیں اس سے ان کی صحت ہی بہتر نہیں رہتی بلکہ ان کی ذہنی صلاحیتیں اور دماغی استعداد کار اپنے ہم عمر ساتھیوں سے بڑھ جاتی ہے۔ پوری دنیا میں اعلیٰ تعلیمی کامیابیوں اور کامرانیوں کے لیے آئی کیو کو معیار بنایا جا رہا ہے۔ یعنی قابلیت اور اہلیت کو ذہانت کی پیمائش کے ذریعے تسلیم کیا جا رہا ہے۔ اس طرح ذہنی صحت اور جسمانی صحت کی طرف توجہ دینا انتہائی اہم ہے۔
بڑھاپے کے مسائل میں یاد داشت کی کمی (الزائمر) عام مسئلہ بن گئی ہے۔ اس طرح وہ تمام لوگ جو ذہانت کو قائم اور یاد داشت کو بہتر بنانے کے خواہش مند ہیں انہیں دماغی طاقت کی طرف توجہ دینا ہو گی۔
ماہرین طب وصحت کا کہنا ہے کہ صحت مند جسم میں جب گردش خون (خون کا دورہ) باقاعدہ ہوتا ہے تو جسم اس کے ذریعے غذائیں دماغ کے سامنے پیش کرتا ہے جن میں سے دماغ اپنی ضرورت کی غذائیں منتخب کر لیتا ہے۔ مگر جب دوران خون یعنی خون کا دورہ باقاعدہ نہ ہو تو دماغ کو اس کی ضرورت کے مطابق غذا نہیں ملتی جس کے نتیجے میں دماغ ضعف کا شکار ہونے لگتا ہے۔ ایسی صورت میں دماغی کمزوری کے سبب یاد داشت میں کمی ہونے لگتی ہے۔
انسانی زندگی میں بچپن سے نوجوانی کی طرف گامزن ہوتے ہوئے مناسب غذا کا استعمال بہت ضروری ہوتا ہے۔ یہ بڑا اہم دور ہوتا ہے جب غذا کا خیال رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ ایسے وقت میں غذائی کمی کے سبب خون کی کمی ہو سکتی ہے جس سے گردش خون میں فرق آئے گا اور جسم کا اعصابی نظام شکست وریخت کا شکار ہونے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے دیکھا گیا ہے کہ اکثر بچے جو بچپن میں صحت مند وتوانا ہوتے ہیں نوجوانی میں خون کی کمی کا شکار ہو جاتے ہیں جس سے جسمانی طور پر کمزوری ہو جاتی ہے اور پھر دماغی طور پر صحت مند نہیں رہتے‘ ان کی یاد داشت متاثر ہوتی ہے اور آئی کیو لیول کم ہو جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کو دماغی یاد داشت بہتر بنانے کے لیے ادویہ کی بجائے غذائی اشیاء پر توجہ دینا چاہیے۔ ماہرین طب وصحت کا کہنا ہے کہ فاسفورس دماغی طاقت کے لیے بہت اہم ہے۔ لہٰذا ایسی غذائی استعمال کرنا چاہئیں جن میں فاسفورس اور لحمیات کی مقدار زیادہ ہو۔ ایسی غذاؤں میں مچھلی کا گوشت سرفہرست ہے کیونکہ مچھلی میں فاسفورس بکثرت ہوتا ہے۔ اسی طرح انڈا‘ دودھ‘ مکھن اور بادام بھی مفید ہیں۔ مغزیات‘ پستہ‘ اخروٹ‘ کشمش‘ اور پنیر کے علاوہ چنے‘ مٹر اور سویا بین دماغ کے لیے مفید ہیں۔ فاسفورس کے علاوہ وہ سب اجزاء ہوتے ہیں جو اعصاب اور عضلات کو توانائی دیتے ہیں۔ ہلکی زود ہضم غذائیں دماغ کو ترو وتازہ اور بیدار رکھتی ہیں۔ سرخ گوشت سے بچ کر رہیں۔ درج ذیل غذاؤں کا استعمال دماغ کو تقویت دیتا ہے‘ اسی طرح ذہانت بھی بڑھتی ہے۔
آج کے دور میں طرز زندگی اور غذائی عادات کی تبدیلیوں نے انسانی صحت اور دماغ کو متاثر کر دیا ہے۔ جس کے نتیجے میں ذہنی استعداد کار یا ذہانت متاثر ہو رہی ہے۔ نسیان یا یادداشت میں کمی جیسے عوارضات بڑھ رہے ہیں۔ طب وصحت کے ماہرین کہتے ہیں کہ بعض غذائیں دماغی قوتوں کو توانا رکھتی ہیں جس سے ذہانت میں اضافہ ہوتا ہے۔ وہ مائیں جو اپنے بچوں کو ایسی مفید غذائیں دیتی ہیں اس سے ان کی صحت ہی بہتر نہیں رہتی بلکہ ان کی ذہنی صلاحیتیں اور دماغی استعداد کار اپنے ہم عمر ساتھیوں سے بڑھ جاتی ہے۔ پوری دنیا میں اعلیٰ تعلیمی کامیابیوں اور کامرانیوں کے لیے آئی کیو کو معیار بنایا جا رہا ہے۔ یعنی قابلیت اور اہلیت کو ذہانت کی پیمائش کے ذریعے تسلیم کیا جا رہا ہے۔ اس طرح ذہنی صحت اور جسمانی صحت کی طرف توجہ دینا انتہائی اہم ہے۔
بڑھاپے کے مسائل میں یاد داشت کی کمی (الزائمر) عام مسئلہ بن گئی ہے۔ اس طرح وہ تمام لوگ جو ذہانت کو قائم اور یاد داشت کو بہتر بنانے کے خواہش مند ہیں انہیں دماغی طاقت کی طرف توجہ دینا ہو گی۔
ماہرین طب وصحت کا کہنا ہے کہ صحت مند جسم میں جب گردش خون (خون کا دورہ) باقاعدہ ہوتا ہے تو جسم اس کے ذریعے غذائیں دماغ کے سامنے پیش کرتا ہے جن میں سے دماغ اپنی ضرورت کی غذائیں منتخب کر لیتا ہے۔ مگر جب دوران خون یعنی خون کا دورہ باقاعدہ نہ ہو تو دماغ کو اس کی ضرورت کے مطابق غذا نہیں ملتی جس کے نتیجے میں دماغ ضعف کا شکار ہونے لگتا ہے۔ ایسی صورت میں دماغی کمزوری کے سبب یاد داشت میں کمی ہونے لگتی ہے۔
انسانی زندگی میں بچپن سے نوجوانی کی طرف گامزن ہوتے ہوئے مناسب غذا کا استعمال بہت ضروری ہوتا ہے۔ یہ بڑا اہم دور ہوتا ہے جب غذا کا خیال رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ ایسے وقت میں غذائی کمی کے سبب خون کی کمی ہو سکتی ہے جس سے گردش خون میں فرق آئے گا اور جسم کا اعصابی نظام شکست وریخت کا شکار ہونے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے دیکھا گیا ہے کہ اکثر بچے جو بچپن میں صحت مند وتوانا ہوتے ہیں نوجوانی میں خون کی کمی کا شکار ہو جاتے ہیں جس سے جسمانی طور پر کمزوری ہو جاتی ہے اور پھر دماغی طور پر صحت مند نہیں رہتے‘ ان کی یاد داشت متاثر ہوتی ہے اور آئی کیو لیول کم ہو جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کو دماغی یاد داشت بہتر بنانے کے لیے ادویہ کی بجائے غذائی اشیاء پر توجہ دینا چاہیے۔ ماہرین طب وصحت کا کہنا ہے کہ فاسفورس دماغی طاقت کے لیے بہت اہم ہے۔ لہٰذا ایسی غذائی استعمال کرنا چاہئیں جن میں فاسفورس اور لحمیات کی مقدار زیادہ ہو۔ ایسی غذاؤں میں مچھلی کا گوشت سرفہرست ہے کیونکہ مچھلی میں فاسفورس بکثرت ہوتا ہے۔ اسی طرح انڈا‘ دودھ‘ مکھن اور بادام بھی مفید ہیں۔ مغزیات‘ پستہ‘ اخروٹ‘ کشمش‘ اور پنیر کے علاوہ چنے‘ مٹر اور سویا بین دماغ کے لیے مفید ہیں۔ فاسفورس کے علاوہ وہ سب اجزاء ہوتے ہیں جو اعصاب اور عضلات کو توانائی دیتے ہیں۔ ہلکی زود ہضم غذائیں دماغ کو ترو وتازہ اور بیدار رکھتی ہیں۔ سرخ گوشت سے بچ کر رہیں۔ درج ذیل غذاؤں کا استعمال دماغ کو تقویت دیتا ہے‘ اسی طرح ذہانت بھی بڑھتی ہے۔
بادام:
بادام مغزیات میں سرفہرست ہے۔ یہ ایک مفید صحت بخش غذا ہے جو دماغ اور اعصاب کو قوت دیتی ہے۔ بینائی میں بھی فائدہ مند ہے۔ روزانہ پانچ سے سات بادام‘ رات پانی میں بھگو کر صبح چھیل کر دودھ کے ساتھ کھانا چاہئیں۔ ان کا مسلسل استعمال دماغی کمزوری سے محفوظ رکھتا ہے۔ ایک صورت یہ بھی ہے کہ بادام کی پانچ چھ عدد مغز گرائنڈ کر کے پیس لیں اور دودھ حسب ضرورت میٹھا کر کے اس میں ملا کر روزانہ صبح پی لیا کریں۔
دودھ:
دودھ ایک مکمل غذا ہے‘ ہر عمر کے افرد کے لیے یکساں مفید ہے۔ انسان صدیوں سے گائے‘ بھینس‘ بکری‘ اونٹنی اور بھیڑ کا دودھ بطور غذا استعمال کرتا چلا آ رہا ہے۔ دودھ میں تمام صحت بخش اجزاء پائے جاتے ہیں۔ دودھ جسمانی طاقت اور دماغی کمزوری کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ دودھ روزانہ صبح یا سہ پہر شہد خالص ملا کر پینا چاہیے اور ہمیشہ باقاعدگی سے پینا چاہیے۔
سیب:
سیب‘ دنیا بھر میں ملنے والا اور پھلوں میں سب سے زیادہ توانائی بخش ہے۔ تمام عمر کے لوگ کھا سکتے ہیں۔ سیب میں فاسفورس تمام پھلوں سے زیادہ پایا جاتا ہے اور چھلکوں میں حیاتین ’’ج‘‘ کی بڑی مقدار پائی جاتی ہے۔ سیب خون صالح پیدا کرتا ہے۔ دماغ کے لیے ایک مؤثر غذائی ٹانک ہے۔ قوت حافظہ بڑھاتا ہے۔ سیب میں پائے جانے والا ایک ایسڈ جگر‘ دماغ اور آنتوں کے لیی بہت مفید ہے۔ کمزور دماغئ اعصاب اور قلب لوگوں کے لیے بہت مفید ہے۔
آملہ:
غذائی اور دوائی افادیت رکھتا ہے۔ دماغ کو تقویت دیتا ہے اور یاد داشت بڑھاتا ہے۔ اطباء صدیوں سے اپنی ادویہ میں استعمال کرتے آ رہے ہیں۔ حیاتین ’ج‘ آملہ میں بکثرت موجود ہوتی ہیں۔ خشک آملوں کا سفوس بنا لیں اور برابر وزن شکر ملا لیں‘ روزانہ ایک سے دو چمچہ تازہ پانی سے کھانا مفید ہے۔ آملہ کا مربہ بھی بنایا جاتا ہے جو دماغی طاقت کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ اس طرح بصارت پر بھی خوشگوار اثر پڑتا ہے۔ تازہ آملہ کا ایک چمچہ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
بیر:
بظاہر یہ ایک چھوٹا سا پھل ہے مگر ضروری غذائی اجزاء سے بھر پور ہے۔ ایک سو گرام بیروں میں 74 کیولریز(حرارے) ہوتے ہیں۔ بیر جسم میں گلو ٹاسک ایسڈ کا اخراج بڑھا دیتا ہے۔ اس طرح دوران خون تیز ہو کر دماغ کی کارکردگی بڑھا دیتا ہے۔ بیر استعمال کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ مٹھی بھر بیر خشک آدھے لیٹر پانی میں اس وقت تک ابالیں کہ پانی نصف رہ جائے پھر ضرورت کے مطابق شہد ملا کر رات سونے سے قبل پی لیا جائے۔
کالی مرچ:
کالی مرچ کو مصالحوں کی ملکہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ اعصاب کی طاقت کے لیے ٹانک کا درجہ رکھتی ہے۔ یاد داشت کو بہتر بنانے میں بہت مفید ہے۔ چٹکی بھر کالی مرچ کا سفوف شہد خالص ایک چمچ میں ملا کر روزانہ چاٹ لینا کمزور دماغ والوں کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے۔
.
تحریر: جناب حکیم راحت نسیم سوھدروی
No comments:
Post a Comment