Friday, 9 December 2016

مسواک ... دانتوں کی صحت کی ضامن

’’صحت اَسنان صحت انسان‘‘ یعنی جس کے دانت اچھے اس کی صحت اچھی۔
اگر دانت درست نہ ہوں تو اعضائے جسم کی درماندگی وبوسیدگی کا باعث بنتی ہے جس سے جسمانی صحت متاثر ہوتی ہے۔ صاف ستھرے‘ چمکیلے اور سفید دانت نہ صرف خوبصورتی وتندرستی کا باعث ہوتے ہیں بلکہ جسم کی جازبیت اور صحت جسم میں اضافہ کرتے ہیں۔ دانتوں کو مضبوط بنانے اور نظام ہضم کے فساد سے بچنے کے لیے دانتوں کو باقاعدگی سے صاف کرنا بہت ضروری ہے۔ اگر دانتوں کی مناسب صفائی کا خیال نہ رکھا جائے تو دانت بوسیدہ اور مسوڑھے خراب ہو جاتے ہیں۔ اس طرح یہ خرابی مسوڑھوں میں پیپ اور خون کی تراوش کا باعث بنتی ہے۔ اس کے نتیجے میں منہ سے بدبو اور پھر بدبو دار سانس انسان کو کسی مجلس میں بیٹھنے کے قابل نہیں چھوڑتا۔ ان حالات میں جو غذا لی جائے وہ دانتوں اور مسوڑھوں کی خراب رطوبات کے ساتھ معدہ میں جا کر فساد ہضم کا سبب بنتی ہے جس سے کئی دوسرے اعضاء متاثر ہوتے ہیں اور صحت ختم ہوتی اور جسم امراض کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل ذرائع ابلاغ پر دانتوں کی صفائی کے لیے مختلف قسم کے ٹوتھ پیسٹ بڑے دعووں کے ساتھ مشہوری کے لیے پیش کیے جاتے ہیں۔ کسی میں فلورائیڈ شامل ہے تو کسی میں لونگ کا تیل‘ ان کو خوشبودار بنانے کے لیے مختلف نباتات سے حاصل کردہ ست (Essence) بھی شامل کیے جاتے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا (ٹی وی چینلز) آج کے دور کا اہم ذریعہ ابلاغ ہے۔
عوام کی ایک بڑی تعداد اس سے متاثر ہوتی ہے‘ ہو سکتا ہے کہ ان ٹوتھ پیسٹوں کے کچھ فوائد بھی ہوں مگر یہ فطرت کی اشیاء کا مصنوعی متبادل تو ہوتے ہیں لیکن ان خصوصیات کے حامل نہیں ہوتے۔ بازار میں ملنے والے مختلف قسم کے برانڈ کاروباری اور مصنوعی ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ٹوتھ پیسٹ کے بڑھتے ہوئے استعمال کے باوجود دانتوں کے امراض بڑھ رہے ہیں۔ جوانی اور بڑھاپا ہی نہیں بچپن میں ہی دانت نکلوائے جا رہے ہیں۔ دانتوں  پر لاکھ اور دانتوں میں سوراخ اس کے علاوہ ہیں۔ سائنسدانوں کا یہ کہنا ہے کہ انسان کے دانت چھوٹے ہو رہے ہیں مگر یہ عمل سست رفتاری سے واقع ہے۔ نوے ہزار سال قبل کے انسان کے دانت آج کے انسان کے مقابل دوگنا تھے۔ امریکہ کی مشی گن یونیورسٹی میں کئی سالوں سے دانتوں  پر تحقیق جاری ہے ان تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ پہلے کا انسان موٹا اناج کھاتا اور جفاکش تھا مگر اب جدید مشینی زندگی کی سہولتوں کے باعث باریک پسی ہوئی اشیاء ملتی ہیں۔ انسان کی صحت کا معیار گر رہا ہے۔ پہلے لوگ گنا دانتوں سے چھیل کر چوسا کرتے تھے اب گنڈیریاں آگئیں اور کون گنا چوسنے کی زحمت کرے؟ اس لیے اب گنے کے رس پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے ہمارے دانت مسوڑھوں میں نہیں رہتے بلکہ مسوڑھے بھی کمزر ہو رہے ہیں۔ جسم کو توانائی غذا سے ملتی ہے۔ اگر دانت صحت مند نہ ہوں تو غذا صحیح طور  پر ہضم ہو گی اور نہ جسم تندرست رہے گا۔
دانتوں کے امراض سے بچنے کے لیے مسواک کا استعمال ناگزیر ہے۔ فطرت انسانی صحت کے لیے بہت فیاض ہے۔ دانتوں کے لیے مسواک ہمیشہ دستیاب رہتی ہے۔ مسواک کے نرم ریشے ہی دانتوں میں موجود جراثیم کش مادہ دانتوں اور مسوڑھوں کے امراض ختم کر سکتا ہے۔ احادیث مبارکہ میں بھی دانتوں کی صحت کے لیے مسواک پر زور دیا گیا ہے۔ یہ سنت بھی ہے۔ علماء کے نزدیک اس کا ثواب بھی ہے اور فوائد بھی۔ تقریباً سات صدیاں قبل سے مسواک کا استعمال ہو رہا ہے۔ اہل عرب اسے بہت مفید خیال کرتے ہیں مگر جدید دور نے جہاں انسان کو آسائشوں کا عادی بنا دیا ہے وہاں وہ اب مسواک کی بجائے ٹوتھ پیسٹ کا عادی بن رہا ہے۔ اسلامی ممالک میں نماز جمعہ کے بعد مساجد کے باہر مسواک فروخت ہوتی ہے لیکن اس کا استعمال کم ہو گیا ہے۔ مگر آسانی سے مل جاتی ہے۔ یہ ایک پنسل کے سائز کی لکڑی نما ہوتی ہے۔

مسواک کی اقسام: 
نیم‘ کیکر‘ پھلاہی‘ زیتون اور سکھ چین۔ مگر ہمارے ہاں پیلو‘ کیکر اور نیم کی لکڑی سے بنی مسواک زیادہ مقبول ہے۔ پیلو میں موجود ٹینک ایسڈ مسوڑھوں میں موجود ردی رطوبات کو دور کر کے انہیں خشک کرتا ہے۔ اس میں موجود فلورائیڈ دانتوں کے انحطاط کو روکنے اور ان کے چمکانے میں کارآمد ہے۔ اس میں موجود وٹامن سی دانتوں کو صحت مند رکھتا اور کلورین جراثیم کش اثرات رکھتا ہے۔ کیکر کی مسواک دانتوں کو مضبوط‘ صاف کرتی ہے۔ منہ سے بدبو ختم کرتی ہے اور نظر کو فائدہ دیتی ہے۔ نیم کی مسواک کڑواہٹ کے باعث معروف ہے تا ہم منہ سے ردی رطوبات کا اخراج کرتی ہے جس سے منہ صاف اور دانت چمکدار ہوتے ہیں اور دانتوں کے اندر پھنسے غذائی اجزاء نکالتی ہے۔ جراثیم کش ہے۔
مسواک کے استعمال سے زبان میں فصاحت اور بلاغت جیسی خوبی پیدا ہوتی ہے۔ مسواک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک پانی بھرے گلاس میں اس کا سرا بھگو دیں کچھ دیر بعد جب وہ نرم پڑ جائے تو دانتوں سے گیلے حصے کو کچل چھیل کر ٹوتھ برش کی طرح بنا لیں۔ پھر اس حصے سے دانتوں کو اچھی طرح رگڑیں۔ پانچ منٹ تک مسواک کرنا کافی ہے۔ ہر چوبیس گھنٹے بعد مسواک کا وہ حصہ کاٹ کر باقی ڈنڈی سے الگ کر دیں جو استعمال کیا گیا ہے۔
خشک مسواک استعمال نہ کریں کیونکہ یہ مسوڑھوں کو زخمی کر سکتی ہے۔ نیز اپنی جراثیم کش (دافع عفونیت) خصوصیت کھو دیتی ہے۔

مسواک کی خصوصیات: 
  • یہ جراثیم کش (انٹی بایوٹیک) ہے۔
  • یہ دافع عفونیت (انٹی سیپٹک) ہے
  • دانتوں کو کیلشیم اور کلورین فراہم کرتی ہے۔
  • دانتوں کے درمیان موجود غذائی ریشے نکال دیتی ہے۔
  • منہ سے بدبو ختم کرتی ہے‘ مسوڑھوں کی حفاظت کرتی ہے۔
  • دانتوں کو چمک دار بناتی ہے۔ بھوک بڑھاتی اور نظام ہضم درست رکھتی ہے۔
.
تحریر: جناب حکیم راحت نسیم سوھدروی

لونگ ... ہاضم اور خوشبو دار

ہمارے ہاں کھانوں کو خوش ذائقہ‘ خوشبودار اور ہاضم بنانے کے لیے صدیوں سے گرم مصالحوں کا استعمال ہوتا ہے۔ لونگ گرم مصالحہ کا ایک جزو ہے۔ جسے عربی میں قرنفل‘ انگریزی میں کلوو (Clove) جب کہ ہندی اور سندھی میں لونگ کہتے ہیں۔ لونگ ہضم کرنے میں بہت معاون ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے پلاؤ کو خوشبودار بنانے اور ہاضمے کے لیے اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یخنی میں ڈالا جاتا ہے۔ اپنی خصوصیات کے باعث اسے گرم مصالحے میں اہم حیثیت حاصل ہے۔ صرف اسی پر بس نہیں لونگ کا جوشاندہ کئی امراض میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ لونگ میں ایسے اجزاء بھی شامل ہیں جو خون کی گردش‘ دورانِ خون (Circulation of Blood) کو درست اور جسم کی حرارت کو قائم رکھتے ہیں۔ اس کا درخت اوسط درجے کے قد کا اور بڑا دلکش ہوتا ہے۔ جس کا ابتدائی تعلق تنزانیہ کے قریب ساحلی جزیرے زنجبار سے ہے۔ تا ہم گزشتہ دو ہزار سال سے عرصے سے چین اور برصغیر میں اس کا استعمال عام ہے اور پایا جاتا ہے۔ آٹھویں صدی تک مغربی ممالک میں بھی یہ بہت استعمال ہوتا رہا ہے۔ ہندوستان کی لونگ بہت خوشبودار اور خوش ذائقہ ہوتی ہے۔ سعودی عربیہ میں حرم کے باہر حبشی خواتین لونگ لیے کھڑی ہوتی ہیں۔ لوگ بڑی رغبت سے خریدتے ہیں۔ یہ لونگ بھی خوشبودار ہوتی ہے۔ تازہ لونگ بڑی خوشبودار اور سخت ہوتی ہے۔ جب پرانی ہو جائے تو بھربھری ہو کر ہاتھ لگانے سے ٹوٹ جاتی ہے۔

روغن لونگ 
لونگ کا تیل بھی کشید کیا جاتا ہے جو روغن لونگ کے نام سے مل جاتا ہے۔ یہ صحت کے لیے بہت مفید ہے۔ اس کا استعمال ایک دو قطرے سے زیادہ  مناسب نہیں ہے۔ دیسی دوا ساز ادارے یہ روغن تیار کرتے ہیں۔ اسے اگر کسی تیل میں ملا کر جسم پر مالش کی جائے تو جسم میں حرارت پیدا ہوتی ہے۔ اس کے ایک دو قطرے پینا ریاحی دردوں میں فائدہ دیتا ہے۔ روئی کے ساتھ دانتوں پر لگانے سے درد ختم کر دیتا ہے۔ جلد پر تین چار قطرے لگانا جلد کو ترو تازہ رکھتا اور قوت فراہم کرتا ہے۔

نزلہ زکام کھانسی: 
جب موسم سرما میں نزلہ زکام اور کھانسی ہو جائے تو بعض مریضوں میں شدت کا پانی بہتا ہے۔ چھینکوں سے برا حال ہوتا ہے اور شدت سردی کے باعث تو بعض لوگوں کا کھانس کھانس کر برا حال ہو جاتا ہے یا گلا خراب ہو کر آواز بیٹھ جائے تو ایک لونگ لے کر ذرا سا نمک لگا کر چوسنا بڑا مفید ثابت ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ چٹکی بھر سفوف بغیر دودھ کے چائے کے قہوہ میں ملا کر پینا بھی فائدہ دیتا ہے۔

دمہ: 
جن لوگوں کو دمہ بلغمی کی شکایت ہوتی ہے‘ اس وقت ان کی طبیعت درست نہیں ہوتی جب تک وہ کھانس کھانس کر بلغم خارج نہ کر لیں۔ ایسے مریضوں کو سردیوں میں اس مرض کی شدت ہوتی ہے اور جب دمہ کا دورہ ہوتا ہے تو ان کی حالت بہت خراب ہوتی ہے۔ ایسے مریضوں کے لیے لونگ پانچ عدد ابال کر چھان کر شہد کا ایک چمچ ملا کر دن میں دو بار پلانا بہت مفید ثابت ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ لونگ آک کے پھول اور نمک سیاہ برابر وزن کوٹ کر گولیاں بنا کر چوس لی جائیں۔ یہ دمہ میں بہت فائدہ مند ہے۔ اس سے بلغم خارج ہوتا ہے۔

جسم اور جوڑوں کا درد: 
جوڑوں کا درد عموماً موسم سرما میں بڑھ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بند چوٹوں کا درد بھی اس موسم میں پریشان کرتا ہے۔ کمزور اعصاب کے لوگوں میں بھی جسم میں درد رہتا ہے۔ اس کے علاوہ بعض لوگوں کو جسم میں مختلف مقامات پر درد ہوتا ہے اور وہ اسے ریاحی درد کا نام دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے لونگ کا قہوہ پینا مفید ہے۔ نیز روغن لونگ کو تلوں کے تیل میں ملا کر نیم گرم کر کے مالش کرنا درد کو آرام دیتا ہے۔

سر درد: 
موسم سرما میں درد سر ہو یا درد شقیقہ (یعنی آدھے سر کا درد) جو مریض کو بے چین کر دیتا ہے۔ ایسے مریض لونگ کے چار پانچ دانے پیس کر تھوڑا نمک ملا کر پیشانی پر لیپ کریں تو فائدہ ہوتا ہے۔

دانت کا درد: 
دانت اور داڑھ میں اگر درد ہو تو روغن لونگ روئی سے لگا کر متاثرہ مقام پر لگانے سے دانتوں‘ داڑھوں اور مسوڑھوں کے درد میں بہت مفید ہے۔

گوع بختی: 
آنکھوں کی پلکوں پر بعض لوگوں کو خارش ہو کر دانے بن جاتے ہیں‘ جنہیں گوع بختی کہا جاتا ہے۔ یہ بہت تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ صبح اٹھنے پر یہ بہت تکلیف دیتا ہے۔ جب تک پک نہ جائے اور مواد خارج نہ ہو‘ مریض کو بہت اذیت ہوتی ہے کیونکہ اس دانے میں ٹیسیں اٹھتی ہیں۔ ایسے مریض اگر لونگ کو مٹی کے گھڑے پر گھس کر دن میں چار پانچ دفعہ لگائیں تو اکثر بیشتر دانہ بیٹھ کر درد ختم کر دیتا ہے۔

کثرت پیشاب: 
بعض لوگوں کو کمزور اعصاب کے باعث موسم سرما میں بار بار پیشاب آتا ہے۔ اس طرح بعض بچے رات سوتے ہوئے بستر پر پیشاب کر دیتے ہیں۔ ایسے لوگ موسم سرما میں چٹکی برابر لونگ کا سفوف استعمال کریں تو کثرت پیشاب سے محفوظ ہو سکتے ہیں۔

ضعف اعصاب: 
آج کی مصروف زندگی اور بڑھتے ہوئے مسائل نے بیشتر افراد کو اعصابی کمزوری میں مبتلا کر دیا ہے جس کو دیکھو وٹامنز اور طاقت کے ٹانک اور ادویہ پر لگا ہوا ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے لونگ پیس کر چٹکی برابر کھانے کے لبوبِ کبیر کا درجہ رکھتا ہے۔ بعض لوگوں میں اعصاب کو سردی لگنے کے باعث دل کی دھڑکن بڑھ جاتی ہے۔ ایسے لوگ بھی لونگ کا استعمال کریں تو مفید ہے۔

ہچکی‘ قے اور بدہضمی: 
معدہ کی خرابی کے علاوہ جن لوگوں کو ہچکی کا اذیت دینے والا مرض ہو یا جی متلاتا ہو‘ معدے میں گیس ریاح پیدا ہوتے ہوں تو لونگ کا چٹکی برابر سفوف اور عرق سونف (بادیان) کے ساتھ استعمال کرنا بہت مفید ہے۔ اگر قے آتی ہو تو شہد ایک چمچہ کے ساتھ استعمال کرنا فائدہ مند ہے۔ اگر قے کی شدت ہو تو لونگ کا چٹکی برابر سفوف عرق پودینہ کے ساتھ استعمال کرانا بھی مفید ثابت ہوتا ہے۔

پرانے زخم یا بند چوٹ: 
اگر پرانے زخم کسی طرح ٹھیک نہ ہوتے ہوں یا موسم سرما میں بند چوٹ میں درد نکل آئے تو روغن لونگ اور ہلدی کا مرہم اکسیر کا درجہ رکھتا ہے۔
.
تحریر:  جناب حکیم راحت نسیم سوھدروی

مالٹا ... دماغی کام کرنے والوں کے لیے اھم غذا

پھل نعمت رب جلیل ہیں اور حضرت انسان کے لیے قدرت کی نعمتوں میں سے ایک ہیں۔ پھلوں میں شکریلے اجزاء اور جسم کو توانائی و حرارت پیدا کرنے والے نیز حیاتین کی مختلف اقسام بکثرت موجود ہوتی ہیں۔ انہیں غذائی ادویہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ پھلوں کی ایک اہم خوبی ان کا زود ہضم ہونا ہے، اس طرح نہ صرف یہ خود ہضم ہو کر فرحت کا احساس دلاتے ہیں بلکہ غذا کے ہاضمے میں مدد دیتے ہیں۔ ان پھلوں میں ایک مالٹا ہے جو ہمارے ہاں بکثرت ہوتا ہے اور اسی تناسب سے استعمال ہوتا ہے۔ نارنگی، سنگترہ، جاپانی پھل (پرسمین) کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ خاندان ترشاوہ کہلاتا ہے۔ ترشاوہ پھلوں کا شمار غذائی اعتبار سے اہم پھلوں میں ہوتا ہے تاہم ہر ایک کی رنگت، خوشبو، ذائقہ اور تاثیر الگ الگ ہے لیکن مالٹا رنگ، خوشبو، ذائقہ اور تاثیر کے لحاظ سے اپنا منفرد مقام رکھتا ہے۔ مالٹا مسمی کے مقابل بڑا اور زیادہ ترش ہوتا ہے۔ پاکستان میں اس کی ایک اور قسم کی کاشت بھی خوب ہونے لگی ہے جو اندر سے سرخ اور چقندری رنگ کی ہوتی ہے، اس حوالے سے یہ ریڈ بلڈ کہلاتی ہے۔ مالٹا تمام عمر کے لوگ بڑی رغبت سے استعمال کرتے ہیں اور ہر عمر کے لوگوں کے لیے یکساں مفید ہے۔ مالٹے کے کیمیائی اجزاء میں سٹرک ایسڈ اور حیاتین ج (وٹامن سی) بکثرت ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ معدنی نمک مثلاً کیلشیم، میگنیشیم، فولاد، پوٹاشیم، فاسفورس، جست اور تانبا وغیرہ بھی ہوتے ہیں۔ مالٹے کا جوس (رس) ہاضم ہوتا ہے جسم کی قوت مدبرہ کی اصلاح کرتا ہے۔ دل و دماغ کو فرحت بخشتا اور معدہ کو قوت دیتا ہے۔ صالح خون پیدا کرتا ہے جس سے رنگت صاف ہو کر اس میں نکھار آتا ہے۔ شدت گرمی میں اس کا استعمال گرمی سے تسکین دیتا ہے۔ یوں یہ موسمی شدتوں سے بچاتا ہے۔ ویسے بھی قدرتی نظام کے تحت پھل اپنے موسمی تقاضوں کو پورا کرتے ہیں۔ حدت اور گرمی کم کرنے کے لیے یہ قدرتی ٹانک ہے، گرمی اور زہروں کو ختم کرتا ہے۔ وہم اور وحشت میں فائدہ دیتا ہے، طبیعت میں چستی و فرحت پیدا کرتا ہے، مالٹا زود ہضم ہے اور حلق سے نیچے اترتے ہی خون میں شامل ہو جاتا ہے، نیز غذا کے ہاضمے میں مدد دیتا ہے۔
طب کے نکتہ نگاہ سے مالٹا صفرا کو کم کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ صفراوی بخاروں میں مفید ہے۔ مالٹے کا رس استعمال کرنے سے طبیعت کو تسکین ملتی ہے، دل و دماغ کو فرحت کا احساس ہوتا ہے اور جسم کا مدافعتی نظام مضبوط ہوتا ہے۔ مالٹے کے پھول میں معدنی اجزاء کافی مقدار میں ہوتے ہیں۔ یوں اس کا صرف رس ہی استعمال نہیں کرنا چاہیے بلکہ پھول بھی کھا لینا چاہیے۔ اس طرح یہ پھل غذائیت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ریشہ (فائبر) بھی فراہم کرتا ہے جو قبض کے لیے مفید ہے۔ ریشہ کے اور بھی بہت فوائد ہیں۔ مالٹے میں چونکہ مٹھاس کم ہے اس لیے ذیابیطس (شوگر) کے مریضوں کے علاوہ ان کے لیے بھی فائدہ مند ہے جو موٹاپے سے نجات چاہتے ہیں، مالٹا کا چھلکا جس قدر پتلا ہو گا اسی قدر غذائی اجزاء سے موثر ہو گا اور ذائقہ بھی اچھا ہوگا۔ اس کے چھلکوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے سکھالیں تو چاولوں کو خوشبودار بناتے ہیں اور ہمارے ہاں گھروں میں انہیں اس طرح استعمال کیا جاتا ہے ان چھلکوں کا مربہ اور ابٹن بھی بنایا جاتا ہے اس ابٹن سے نہ صرف چہرے کے داغ، دھبے اور چھائیاں دور ہوتے ہیں بلکہ چہرے کی جلد میں قدرتی نکھار پیدا ہوتا ہے۔
البتہ یہ بات پیش نظر رہے کہ وہ لوگ جن کو نزلہ، زکام اور کھانسی کا عارضہ ہو وہ مالٹا کا استعمال نہ کریں کیونکہ ان عوارضات میں مالٹا استعمال کرنا مضر ثابت ہو سکتا ہے۔ وہ لوگ جن کا گلا ترش اشیاء کا متحمل نہیں ہو سکتا انہیں اس کے ساتھ کالی مرچ اور تھوڑا نمک لگا کر استعمال کرنا چاہیے، قدرت کا یہ خوبصورت خوش ذائقہ پھل جام زریں ہے اور اس موسم میں اس جام زریں کو خوب منہ لگائیے۔
.
تحریر:  جناب حکیم راحت نسیم سوھدروی

پتے کے امراض

پتہ یعنی مرارہ (Gall Bladder) ایک چھوٹا سا تھیلی نما ناشپاتی کی مانند عضو ہے۔ جو ہمارے شکم کے اوپر دائیں جانب اور جگر کے نیچے واقع ہے۔ اسے جگر کا حصہ بھی کہا جاتا ہے۔ پتہ کوئی چار انچ لمبا اور ایک انچ چوڑا ہوتا ہے۔ اس میں ایک اونس مائع (Fluid) سما سکتا ہے۔ پتے کا کام پت یعنی صفرا (Bile) کو جمع کرنا ہوتا ہے۔ ہمارا جگر (Liver) مسلسل صفرا (Bile) تیار کرتا رہتا ہے جو ابتدا میں شفاف ہوتا ہے مگر مرتکز ہو کر اس کی رنگت گہری سبز مائل ہو جاتی ہے۔ یہ اس وقت کثیف ہو جاتا ہے جب چھوٹی آنت (Doudenum) میں بھاری چربیلی غذا ہوتی ہے۔ پتہ (Gall Bladder) خود بخود زور کے ساتھ سکڑتا ہے تو یہ کثیف مائع پت (Bile) نکل کر چھوٹی آنت (Doudenum) میں نالی کے ذریعے آجاتا ہے تا کہ اس بھاری چربیلی غذا کو چھوٹے چھوٹے ذروں میں بدل کر ہضم ہونے میں مدد دے۔ اس طرح پت (Bile) نہ صرف چربیلی غذا کو قابل ہضم بناتا ہے بلکہ فضلات کو خارج کرنے کی تحریک دیتا ہے۔ آنتوں میں موجود مواد میں سڑاند پیدا نہیں ہونے دیتا۔ اگر کسی وجہ سے پت کم مقدار میں خارج ہو اور غذا میں چربیلی چکنائی زیادہ ہو تو وہ غذا ہضم نہیں ہوتی۔ کیونکہ پت کی کمی کے باعث چکنائی ٹوٹ کر باریک ذروں کی صورت اختیار نہیں کرتی اور یہی غیر منہضم چربیلی غذا آنتوں میں جراثیم پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے۔ اس طرح پت (Bile) کے تیزابی مادے بڑھ کر کولیسٹرول (Cholesterol) اور کیلشیم کی زیادتی (Meta Static Calcification) کا سبب بنتے ہیں۔ اس طرح یہ ذرات بڑھ کر پتھری کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں۔

پتے کی پتھری (حصاۃ مرارہ):
پتہ (Gall Bladder) کے امراض میں پتے کی پتھری عام شکایت ہے۔ کبھی ایک پتھری اور کبھی دو تین پتھریاں جو چھوٹی چھوٹی ہوتی ہیں ہو سکتی ہیں۔ مطب کے مشاہدات میں آیا ہے کہ بعض مریضوں میں بجری کی مانند کافی پتھریاں ہوتی ہیں جو کہ کافی خطرناک ہوتی ہیں۔ کیونکہ ان میں سے کوئی ریزہ پتے کی نالی (Bile Duct) میں جا کر پت کا راستہ روک سکتا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ بعض افراد میں پت (Bile) اس قدر گاڑھا ہوتا ہے کہ وہ بہنے کے قابل نہیں رہتا۔ اس میں موجود کولیسٹرول (Cholesterol) مرتکز ہو کر پتھری کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ یہ پتھریاں زیادہ بھی ہو جاتی ہیں۔ اس طرح پتے میں پائے جانے والے جراثیم بھی پتے کی پتھری بنانے میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ ان جراثیم کے اطراف میں پتھری کی تشکیل شروع ہو جاتی ہے اور یہ پتھری پت (Bile) کا راستہ روک سکتی ہے جب کہ بعض افراد میں کسی مرض یا کسی اور باعث خون کے سرخ خلیے (Hemoglobin) بڑی تعداد میں ضائع ہونے سے پت گاڑھا ہو جاتا ہے اور نالی سے بہہ نہیں سکتا۔ اس طرح یہ بھی مشاہدہ میں آیا ہے کہ خواتین میں حمل کے بعد پتھری بننے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ کیونکہ بچے کی پیدائش کے بعد خواتین میں بعض کیمیائی تبدیلیوں کے باعث بھی پتھری ہو جاتی ہے۔ اگر پتھری یا پتھریاں چھوٹی چھوٹی ہوں تو ایکسرے میں نہیں آتیں‘ البتہ الٹرا ساؤنڈ میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ پتے کی پتھری کے لیے عمر اور جنس کی کوئی قید نہیں۔ تاہم دیکھا گیا ہے کہ درمیانی عمر کی خواتین جن کا جسم موٹاپے کا شکار ہوتا ہے اس مرض میں زیادہ مبتلا ہوتی ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگوں میں سال ہا سال سے پتھری یا پتھریاں ہوتی ہیں اور نالی کے بند نہ ہونے کے باعث کوئی تکلیف نہ ہونے کی وجہ سے انہیں علم نہیں ہوتا۔ اکثر افراد کو پتے کی پتھری کا اس وقت علم ہوتا ہے جب مقدار اور حجم میں بڑھ کر تکلیف کا باعث بنتی ہیں۔ ابتدا میں مریض کو گیس اور ریاح کی شکایت ہوتی ہے۔ جب پتھری صفراوی نالی (Bile Duct) میں جا کر اس کا راستہ بند کر دے تو پیٹ میں درد ہوتا ہے کیونکہ صفراوی نالی (Bile Duct) کا راستہ سکڑ کر بند ہو جاتا ہے اور آنتوں پر پت (Bile) نہیں گرتا جس کی وجہ سے نظام انہضام کے مسائل جنم لیتے ہیں۔ بعض افراد میں یرقان (Jaundice) جسے پیلیا بھی کہتے ہیں ہو جاتا ہے۔ بعض افراد میں لبلبہ (Pancreas) بھی متاثر ہوتا ہے۔ اگر پتے کی پتھری ہو جائے اور کسی تکلیف کا باعث نہ ہو تو مناسب یہ ہے کہ اسے نہ چھیڑا جائے۔ اگر پتے کی پتھری کے باعث تکلیف ہو یا پت نالی کا راستہ بند ہو رہا ہو تو ایسی صورت میں سرجن کے مشورے سے پتہ نکلوا دینا ہی مناسب راہ عمل ہے۔ اس سے کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ اب جدید ٹیکنالوجی لیپروسکوپی کے ذریعے پتہ نکالنے کا کام مزید آسان ہو گیا ہے اور بغیر چیر پھاڑ کے یہ کام ہو جاتا ہے۔ مگر اس کا فیصلہ ماہر سرجن مریض کی صورت حال کے مطابق کرتا ہے۔ پتہ ایک بند تھیلی ہے جس سے پتھری کو بذریعہ ادویہ اس لیے خارج نہیں کیا جا سکتا کہ پتھری نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ جیسا کہ گردے کی پتھری (مفتت حصاۃ) ادویہ سے ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو کر یا چھوٹی چھوٹی پتھریاں پیشاب کی نالی کے راستہ سے مثانے کے ذریعے خارج ہو سکتی ہیں۔
مطب کے مشاہدہ میں آیا ہے کہ جن افراد نے سرجری سے پتہ نکلوا دیا ان کے معمولات زندگی میں کوئی فرق نہیں آتا بلکہ دوسرے افراد کی طرح نارمل زندگی گزارتے ہیں۔ اس لیے جن کو پتہ کی پتھری کے باعث تکلیف ہو کسی ماہر سرجن کے مشورے سے نکلوا دیں وگرنہ پتہ گل کر مضر ثابت ہو سکتا ہے۔

پتے کا ورم (التہاب مرارہ)
بعض افراد کا پتہ متورم ہو جاتا ہے اس کی وجہ عموماً جراثیم کا چھوٹی آنت سے نکل کر پتے میں جمع ہونا یا پتھری کے کسی ریزے کا صفراوی نالی (Bile Duct) کے منہ پر آجانا ہو سکتا ہے۔ جن افراد کا پتہ متورم ہو جائے عموماً ان کو شکم کے بالائی حصہ جوجگر کے نیچے واقع ہوتا ہے پتہ میں درد ہوتا ہے۔ یہ درد بہت شدید ہوتا ہے جو بڑھ کر کمر اور کبھی دائیں کندھے تک چلا جاتا ہے۔ بعض افراد میں قے اور یرقان بھی ہو جاتا ہے‘ اس درد کی مدت کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔ بعض افراد میں یہ درد کئی کئی روز ہوتا ہے۔ اگر توجہ نہ دی جائے تو پتہ گل کر پھٹ بھی سکتا ہے جس سے سنگین مسائل صحت پیدا ہو سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں مریض کو کوئی مائع شے نہ دی جائے فوراً معالج سے رجوع کیا جائے۔ درد کے ازالے کے لیے ذیل کی تدبیر مناسب ہے۔
پودینہ سبز تین گرام‘ الائچی سبز دو عدد اور سبز چائے تین گرام۔ آدھے گلاس پانی میں اُبال کر بغیر شکر ملائے قہوہ کی صورت میں دو گھنٹے بعد دو دو چمچ کھانے والے پی لیا جائے۔ درد کا افاقہ ہونے پر معالج کے مشورے سے پتہ نکلوا دیا جائے وگرنہ کئی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پر سکتا ہے۔

غذا:
پتے کے امراض سے محفوظ رہنے کے لیے چکنائیوں کا استعمال توازن سے کریں اور غذا میں غذائی ریشہ‘ سالم اناج‘ پھلوں اور سبزیوں کی صورت زیادہ رکھیں۔ ہلکی پھلکی ورزش کریں۔
.
تحریر: جناب حکیم راحت نسیم سوھدروی

بلڈ پریشر ... ایک خاموش قاتل

دنیا بھر میں سب سے بڑے خوفناک مرض کی صورت میں سامنے آنے والی دل کی علامت بلڈ پریشر یعنی خون کی نالیوں کا سکڑنا اور پھیلائو ہونا ہے۔ سکڑ کے عمل کے دوران وہ خون کو ایک طرف سے جسم کے نظام دوران میں داخل کرتا ہے اور دوسری طرف سے گندے خون کی ایک مقدار پھیپھڑوں کو تازہ آکسیجن حاصل کرنے کے لیے روانہ کرتا ہے۔ اس کے بعد وہ تھوڑی دیر آرام کرتا ہے یعنی خون کو جسم اور پھیپھڑوں کی جانب روانہ کرنے کے بعد ایک مختصر عرصہ کے لیے اپنے آپ کو ڈھیلا چھوڑ دیتا ہے۔
یہ نظام اگر انسانی جسم میں ایک نظم و ضبط اور تسلسل سے جاری رہے تو انسان صحت مند کہلاتا ہے لیکن اس نظم و ضبط میں جب کبھی اور جہاں کہیں بھی خرابی واقع ہوتی ہے تو مرض رونما ہو جاتا ہے۔ دل انسانی جسم کو خون کی صورت میں غذا مہیا کرنے کا کام انجام دیتا ہے۔ یہ عضو رئیس بھی ہے۔ یہ اپنے پمپ کے دبائو اور حرکت کی صورت میں 57cc خون اپنی ہر حرکت پر نالیوں میں پھینکتا ہے۔ دورانِ خون میں تین اشیاء یا عوامل کار فرما ہیں‘ جو یہ ہیں:
(1) خون کا دبائو     (2) خون کا بہائو      (3) رکاوٹ

خون کا دبائو:   
خون میں دبائو کی وجہ سے رطوبات (پلازما) کی کمی ہوتی ہے اور شریانوں میں اس کا بہائو سست ہوگا، خون گاڑھا ہوگا اور شریانوں میں اس کا گزر مشکل ہوتا چلا جائے گا۔ خون کے بہائو میں ایک دوسرا مانع پلازما یا رطوبات خون میں لحمی اجزاء کی موجودگی ہے لیکن پانی کی قلت انتہائی اہم ہے جبکہ پانی کی نسبت رطوبت خون کی اہلیت 1-5 تا دگنا ہوتی ہے گویا جوں جوں خون گاڑھا ہوگا، اس میں پانی کی مقدار کم ہوگی، خون کا دبائو زیادہ بڑھے گا۔ 

بلڈ پریشر علامات مرض:  
شروع میں جب مریض سیڑھیاں چڑھتا ہے یا کوئی سخت محنت والا کام کرتا ہے تو اس کا سانس پھولنے لگتا ہے، سینہ میں بوجھ یا دبائو کا احساس ہوتا ہے، اس کے علاوہ دردِ سر، بے خوابی اور بے چینی مزاج میں چڑچڑاپن، رنج و غصہ میں مبتلا ہو جانا، دورانِ خون تیز ہو جانا، دماغ میں چھوٹی شریان کا پھٹ جانے سے دماغ کے اندر جریانِ خون ہو کر مریض کو سکتہ یا فالج ہو جاتا ہے۔ 

بلڈ پریشر اور قانونِ مفرد اعضاء:  
بلڈ پریشر بذاتِ خود کوئی مرض نہیں بلکہ یہ خون کے دبائو میں اتار چڑھائو کی ایک علامت ہے۔ نشہ آور چیزوں شراب، چرس، تمباکو کے استعمال سے یہ کیفیت پیدا ہو جایا کرتی ہے۔ کثرت چائے نوشی، رات کو دیر تک جاگنے سے بھی خون کے دبائو میں اضافہ ہو جایا کرتا ہے اور جو لوگ مرغن اغذیہ استعمال کر کے ورزش نہیں کرتے وہ بھی اس عارضہ کی زد میں آجایا کرتے ہیں۔ خواہشات نفسانی کے غلام اس ناگوار صورت سے دوچار ہو جایا کرتے ہیں۔ مرض کی تین صورتیں ہیں:
  1. دل کے فعل کی تیزی کی وجہ سے شریانوں میں سکیڑ پیدا ہو جاتا ہے جس سے دورانِ خون میں رکاوٹ پیدا ہو جایا کرتی ہے۔ دل اس رکاوٹ کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے جس سے خون کے دبائو میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ سانس تنگی سے آتا ہے، دل کے مقام پر درد اور گھٹن محسوس ہوتی ہے اور ساتھ اختلاجی کیفیت بھی ہوتی ہے۔ مریض کے قارورے کا رنگ سرخی مائل بہ سیاہ ہوتا ہے یعنی عضلاتی (خشکی) تحریک ہوتی ہے جس سے خون میں دبائو بڑھ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ پیٹ میں ہوا کا بھرجانا، قبض کا ہونا، سر میں درد، بے خوابی جیسی علامات پیدا ہو جاتی ہیں۔
  2. جگر کے فعل کی تیزی کے سبب اس کی متعلقہ وریدوں میں سکیڑ پیدا ہو جاتا ہے۔ دل میں تحلیل کی وجہ سے اس کا حجم بڑھ جاتا ہے جس سے خون کے بہائو میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے، اس رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے نظام بدن خون کے دبائو میں اضافہ پیدا کرتا ہے جس سے دل کی رفتار سست ہو جاتی ہے، اس کو ہی لازمی بلڈ پریشر کہا جاتا ہے۔
  3. دماغ کے فعل میں تیزی ہو کر اس کی عروق کشادہ ہو جاتی ہیں جس سے دل کی حرکت سست پڑ جاتی ہے۔ دل پھول کر طبعی حجم سے بڑا ہو جاتا ہے جس سے دورانِ خون میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے، اس کو بلڈ پریشر کہتے ہیں۔
بلڈ پریشر بڑھانے والے عوامل    
ہائی بلڈپریشر میں عموماً جو اسباب ممدومعاون ثابت ہوتے ہیں وہ گردوں اور جگر کا سکیڑ، دائمی قبض و تیزابیت، جسمانی و دماغی محنت، آنتوں کی عفونت، کثرتِ نشہ، شراب اور تمباکو نوشی، موسم وماحول کی تبدیلی اور ہر ایسی علامت جس سے خون میں سے رطوبات کی کمی واقع ہو جاتی ہے۔
 گردوں کی خرابی    گردوں کی بیماریاں پریشر کا باعث بنتی ہیں جیسے پیشاب میں پروٹین کا آنا، گردوں میں رکاوٹ، رسولیاں، پتھریاں، سوزش بھی ان کو متاثر کر دیتے ہیں جس سے گردوں میں خرابی پیدا ہو کر پریشر بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔
   تیزابیت و قبض:    تیزابیت و قبض کی وجہ سے عضلات میں سکیڑ پیدا ہوتا ہے اور سکیڑ سے خون کے بہائو میں رکاوٹ پیدا ہو کر اس میں خون کا دبائو بڑھ جاتا ہے جس سے بلڈ پریشر کا مرض پیدا ہو جاتا ہے۔
  مانع حمل ادویات:    حمل کو روکنے والی ادویات نسوانی غدودوں کے جوہروں سے تیار ہوتی ہیں۔ اب یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ باقاعدگی سے یہ ادویہ کھانے والی خواتین کو بلڈ پریشر ہو جاتا ہے۔
عام طور پر بلڈپریشر میں اضافہ خون کی نالیوں کے الاسٹک کی خرابی یا ذہنی دبائو سے ہوتا ہے۔ ان خواتین میں اضافہ کی خاص وجہ ان گولیوں کا استعمال ہے۔ گولیوں کے اثرات سے عضلات میں سکیڑ واقع ہوتا ہے جس سے ان میں بلڈ پریشر میں اضافہ، دل کی بیماری اور فالج کے امکانات دوسری عورتوں سے زیادہ ہوتے ہیں۔
  مقوی ادویات اور بلڈ پریشر:   مردمی کمزوری کے لیے استعمال کی جانے والی ادویات سے دل کی نالیوں کی بندش کے باعث دل کا دورہ پڑنے کے حادثات دیکھنے میں آئے ہیں۔ امریکہ کے ڈاکٹروں نے جو مقوی باہ دوائی ’’ویاگرا‘‘ نامی تیار کی ہے اس کے مضر اثرات کا پوری دنیا میں ایک شور پیدا ہو گیا ہے۔ خود امریکہ میں گزشتہ چند برسوں میں کم از کم ہزاروں افراد کو دل کا دورہ پڑا ہے۔
  مرغن کھانے:    غیر ہضم شدہ غذا سے خون گاڑھا ہو جاتا ہے جس سے شریانیں تنگ اور بے لچک ہو جاتی ہیں، اس حالت میں غذا کو ہضم کرنے کے لیے دل کو زیادہ خون پمپ کرنا پڑتا ہے اور اس طرح خون کا دبائو بڑھ جاتا ہے جو بلڈ پریشر کا باعث بن جاتا ہے۔
  ماحول:    ماحول بھی ہماری صحت پر اپنے اثرات مرتب کرتا ہے۔ ذہنی دبائو، تھکن اور اعصابی تنائو کی کیفیت پیدا کر کے پریشر میں زیادتی کا باعث بنتے ہیں۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ شور بلڈ پریشر میں اضافہ کرتا ہے۔ آس پاس میں شور ہو یا ہمسایہ سے آنے والی آوازیں بھی پریشر میں اضافہ یا بے آرامی کا باعث ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگ خاموش اور پرسکون علاقوں میں رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں اور شوروغل ٹریفک کی آوازیں گاڑیوں کی دھمک بے سکونی سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
  علاج    خون کے دو بڑے اجزاء ہیں: ایک ذرات خون۔ دوسرا رطوبت خون۔ ذرات خون کی بھی دو اقسام ہیں۔ ایک سرخ ذرات، دوسرے سفید ذرات، رطوبت کا سیال بیرونِ خلیات کا ایک حصہ ہے اور یہ سیال جو اندرونِ خلیات ہوتا ہے اس میں پانی کی قلت ہو جاتی ہے۔ لہٰذا اس کے علاج میں رطوبت (پلازما) کو پیدا کیا جائے جس سے خون میں رطوبت کی قلت ختم ہو اور خون اپنی مقررہ مقدار میں جسم میں اپنا کام سرانجام دے سکے۔ قانونِ صابر کے مطابق یہ غدی مرض ہے لہٰذا اس کا اعصابی ادویہ و اغذیہ سے علاج کیا جائے۔
   غذائی علاج:    مجدد طب حکیم انقلاب فرماتے ہیں کہ اس مسلم حقیقت سے کوئی صاحبِ بصیرت انکار کی جرأت نہیں کر سکتا کہ انسانی زندگی کے قیام اور صحت کاملہ کا دارومدار کھانے پینے اور ہوا پر ہے۔ اس اہم پروگرام میں غذا کو بے پناہ اہمیت حاصل ہے۔ کیونکہ غذا سے جو طاقت پیدا ہوتی ہے وہ اس صرف شدہ قوت کا بدل بنتی ہے جو انسان روزمرہ کے فرائض کی انجام دہی میں صرف کرتا ہے۔ بعض لوگوں میں کثرتِ محنت کی وجہ سے قوت بدنی کے زیادہ خرچ ہونے کے سبب تحلیل واقع ہو جاتی ہے۔ ان میں سے بعض دماغی محنت کرتے ہیں جس سے اعصابی دبائو بڑھ کر پٹھے کمزور ہو جاتے ہیں۔ بعض لوگ جسمانی محنت تو نہیں کرتے اور اپنی نشت طلبی کے باوجود کھانے پینے کے بہت دلدادہ ہوتے ہیں۔ کثرتِ غذا کے سبب ان لوگوں کے گردے اور جگر اپنے وظائف مفوضہ کی انجام دہی سے قاصر ہو جاتے ہیں جس سے بدن کے اہم اعضائے جسمانی میں ضعف لاحق ہو کر صحت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ پس ہر انسان کے فرائض حیات کو سامنے رکھ کر اس کے لیے ایسی غذا کا تعین ضروری ہے جسے استعمال کر کے وہ اپنی روزمرہ کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو کر صحت مند اور تندرست رہے۔ یہ امر ماہرین کے نزدیک متفق علیہ ہے کہ پہلے انسانوں اور حیوانوں میں خون کی پیدائش غذا کی مرہون ہوتی ہے۔ خون پیدا کرنے میں کسی بڑے بڑے ٹانک حیاتین یا دیگر قوت پیدا کرنے والی ادویات کا کوئی عمل دخل نہیں۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رہے کہ غذا اگر بھوک کے بغیر کھائی جائے تو اس سے خون کی پیدائش کے بجائے جسم میں تعفن و خمیر پیدا ہوگا جس سے معدی عوارض جنم لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قانونِ مفرد اعضاء کے حاملین مطب میں آنے والے ہر مریض کو اس امر کی ہدایت کرتے ہیں کہ جب تک شدید بھوک پیدا نہ ہو اس وقت تک کھانا نہیں کھانا چاہیے کیونکہ اس سے مریض کے جسم سے خمیر اور عفونت کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور مریض شاہراہِ صحت پر گامزن ہو کر کامل شفا سے ہمکنار ہو جاتا ہے۔ 

ہائی بلڈ پریشر کے مریض کیلئے غذائی چارٹ 
  ناشتہ:    تلبینہ (جو کا دلیا شہد+ دودھ کی مدد سے تیار)، حلوہ گاجر، حلوہ کدو، ساگو دانہ کی کھیر، کسٹرڈ، اُبلے ہوئے چاول، ہریرہ، مغز بادام، سویاں دودھ والی، دودھ جلیبیاں، اسپغول کی کھیر، مربہ سیب، مربہ گاجر۔
  کھانا:    مولی، گاجر، کدو، توری، اروی، شلجم، ٹینڈیاں، چقندر، دال ماش، دال مونگ، خرگوش، سری پائے، مغز بکرا۔
  مصالحہ جات:   سالن میں کالی مرچ اور دھنیا، زیرہ سفید ڈال کر دیسی گھی میں پکائیں۔
  پھل:    کیلا، گرما، شکر قندی، گنڈیریاں، مسمی، ناشپاتی، خربوزہ۔
میوہ جات:     دودھ، رس گنا، شربت بزوری، شہد کا شربت، شربت نیلوفر، شربت صندل، ناریل کا پانی، تازہ پتلی لسی، کیلے کا ملک شیک، انار کا جوس۔ مسمی کا جوس۔
 سلاد:    کھیرا، مولی، گاجر، چقندر، امرود۔
نوٹ: ذیابیطس کے مریض اپنے معالج کی ہدایت پر عمل کریں۔
  مجربات:   غذائی علاج کے ساتھ مجربات کو بھی ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ ذیل میں چند اہم نسخہ جات قلمبند کیے جا رہے ہیں۔
  ھوالشافی:    کشتہ ابرک سفید 4 تولہ، گلوکوز 4تولہ، قلمی شورہ ایک تولہ، الائچی سبز ایک تولہ۔
  ترکیب تیاری:   تمام ادویہ کو نہایت باریک کر کے اعلیٰ قسم کا کشتہ اس میں ڈال کر محفوظ کر لیں بس تیار ہے۔
  مقدار خوراک:    ایک ماشہ صبح شام منہ میں رکھ کر چٹائیں یا نیم گرم دودھ سے استعمال کریں۔
  فوائد:    ہائی بلڈ پریشر کو منٹوں میں سکون مہیا کرتا ہے۔ خفقان دل کی گھبراہٹ، سانس پھولنا اور پیاس کی شدت کو ختم کرتا ہے۔
  تریاق فشار:    اسرول آدھا تولہ، صندل سفید 5 تولہ
  ترکیب تیاری:   تمام ادویہ کو نہایت باریک سفوف بنا لیں۔ 4 رتی سے ایک ماشہ دن میں چار بار عرق گائوزبان پانچ تولہ کے ساتھ استعمال کریں۔
  جوارش شاہی:    مربہ سیب 5 تولہ، مربہ گندر، کشنیز خشک 5 تولہ، الائچی خورد 2 تولہ، صندل سفید 2 تولہ، گلِ سُرخ 2 تولہ، شہد سہ چند۔
تمام ادویہ کو معروف طریقہ سے جوارش تیار کر لیں اور 6 ماشہ سے ایک تولہ تک دن میں دو سے چار بار تک کھلائیں۔
.
تحریر: جناب حکیم رفیق احمد صابر

جَو ... شفاء بخش غلہ

نام:۔ جو کو عربی میں شعیر، بنگالی میں جب، سندھی میں جؤ، سنسکرت میں بوہ یا باوا اور انگریزی میں (Barley) کہا جاتا ہے۔
صفات و شناخت:۔ خوردنی اجناس میں سے ایک عام چیز ہے۔ گندم سے پہلے پک کر تیار ہو جاتا ہے۔ وہ جؤ زیادہ بہتر ہوتے ہیں جو سرخ زمین میں کاشت کیے گئے ہوں اور ان کو برسات کا پانی ملتا رہا ہو۔ پوری طرح پکا ہوا اور وزن میں بھاری ہو، تازہ جو ٔزیادہ بہتر ہوتے ہیں۔ اگر ایک سال پرانے ہو جائیں تو زیادہ فائدہ مند نہیں ہوتے۔
مزاج:۔ سرد خشک مزاج رکھتے ہیں۔ 

خواص و فوائد: 
اس میں گیہوں کی نسبت نشاستہ کم ہوتا ہے۔
نبی کریمﷺ اسے بہت پسند کرتے تھے۔ آپﷺ کی ذات گرامی کے ساتھ اس کا واسطہ بطور روٹی، دلیہ اور بطور ستو احادیث نبویﷺ سے ثابت ہے۔ حضرت ام المنذرؓ بیان کرتی ہیں کہ میرے پاس نبی کریمﷺ، حضرت علیؓ کے ہمراہ تشریف لائے۔ ہمارے ہاں کھجور کے خوشے پکے ہوئے موجود تھے۔ وہ ان کی خدمت میں پیش کیے گئے۔ اس میں سے انہوں نے تناول فرمایا۔ جب حضرت علیؓ تھوڑے کھا چکے تو رسول اللہﷺ نے روک دیا اور فرمایا کہ: ’’تم ابھی بیماری سے اٹھے ہو اور مزید مت کھائو۔‘‘ اس کے بعد میں نے ان کے لیے جؤ تیار کیے۔ نبیﷺ نے علیؓ سے کہا: ’’ تم اس میں سے کھائو یہ تمہارے لیے مفید ہے۔‘‘
اسی طرح حضرت انسؓ بن مالک فرماتے ہیں کہ انہوں نے نبیﷺ کی دعوت کی اور جؤ کی روٹی کے ساتھ گوشت پکایا۔ حضورﷺ بڑی محبت سے سالن سے کدو کے ٹکڑے تلاش کر کے تناول فرماتے تھے۔ رسول اللہﷺ کے اہل خانہ سے جب کوئی بیمار ہوتا تھا تو حکم ہوتا تھا کہ اس کے لیے جو کا دلیہ تیار کیا جائے۔ پھر آپﷺ فرماتے تھے کہ یہ بیمار کے دل سے غم کو اتار دیتا ہے اور اس کی کمزوری کو دور کر دیتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہr بیمار کے لیے جؤ کو دودھ میں پکا کر اس میں شہد ڈال کر تلبینہ تیار کرواتی تھیں اور فرماتی تھیں کہ اگرچہ بیمار اس کو ناپسند کرتا ہے لیکن یہ اس کے لیے بہت مفید ہے۔ تلبینہ تھکن اور پریشانی کو بھی دور کرتا ہے۔ حضور نبی کریمﷺ تلبینہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس خدا کی قسم! جس کے قبضہ میں میری جان ہے یہ تمہارے پیٹوں سے غلاظت کو دور کرتا اور دل کے جملہ عوارض کا علاج ہے۔ آپﷺ اس تلبینہ کو قابل برداشت گرم گرم، بار بار اور خالی پیٹ تناول فرماتے تھے۔
جؤ کے بارے میں بو علی سینا نے لکھا ہے کہ جؤ کھانے سے خون پیدا ہوتا ہے۔ یہ خون معتدل، صالح اور کم گاڑھا ہوتا ہے۔ فردوس الحکمت میں لکھا ہے کہ جؤ کو اس کے وزن کے پندرہ گنا پانی میں اتنی دیر تک ہلکی آنچ پر پکایا جائے کہ تیسرا حصہ اڑ جائے۔ اس کو ’’آش جؤ‘‘ کہتے ہیں۔ یہ پانی جسم کی ایک سو بیماریوں کے لیے مفید ہے۔ شمس الدین ثمرقندی اسے فوائد کے لحاظ سے گندم کو کم تر درجہ دیتا ہے۔ مگر وہ گندم سے اس لحاظ سے فضیلت دیتا ہے کہ یہ جسم کی گرمی اور تپش کو کم کرتا ہے۔ اس کا حریرہ قابض دوائوں کے ساتھ دست روکتا ہے۔ جؤ کے آٹے میں چھاچھ ملا کر پینے سے صفراوی قے، پیاس کی شدت اور معدہ کی سوزش میں فائدہ مند ہے۔ اطباء نے اعصابی دردوں، اورام، سوزشوں اور خارش کی مختلف اقسام میں اس کے استعمال کو مفید بتایا ہے۔ اس کا آٹا سرکہ میں گوندھ کر لگانے سے ہر قسم کی خارش میں مفید ہے۔ یہ سر کی پھپھوندی کو دور کرتا ہے۔ اس کے آٹے کو شہد کے پانی میں گوندھ کر لیپ کریں تو بلغمی اورام تحلیل ہوتے ہیں۔ سفرجل (بہی) کا چھلکا اتار کر اسے جؤ اور سرکہ کے ساتھ پیس کر جوڑوں کے درد اور اعصابی دردوں پر لگانا نفع بخش ہے۔ اس کے ساتھ تخم خیارین (کھیرا) پیس کر پلورسی، پستان کے درد پر لگانا مفید ہے۔ جؤ اور گیہوں کی بھوسی کو پانی میں ابال کر اس پانی سے کلیاں کریں تو دانت کا درد جاتا رہتا ہے۔ ہرے دھنیے کے پانی میں جؤ کا آٹا ملا کر خنازیر اور گرم و سخت اورام تحلیل ہو جاتے ہیں۔ سرکہ میں اس کا آٹا ملا کر پیشانی پر لیپ کرنے سے گرمی کا درد سر دور ہوتا ہے۔ جؤ صفرا اور خون کو درست کرتا ہے۔ حلق کے امراض کو نافع ہے۔ بلغم، جریان اور گرمی کو مٹاتا ہے۔ جسم سے چربی کم کر کے موٹاپا کم کرتا اور جسم کو مضبوط کرتا ہے۔ اس کی پتلی کھچڑی پکا کر اس میں شہد ملا کر ٹھنڈی کر کے کھانے سے بخار، قے اور صفراوی دردشکم میں بہت مفید ہے۔
اوپری دودھ پینے والے بچوں کو اگر دودھ میں جؤ کا پانی ملا کر دیا جائے تو ان کی آنتیں زیادہ تنومند رہتی ہیں۔ مثانہ اور پیشاب کی سوزش میں جؤ کے پانی میں صمغ عربی (کیکر کی گوند) کا سفوف شامل کر کے پلایا جائے تو پیشاب کی جلن کو جلد آرام آ جاتا ہے۔ 

جدید مشاہدات:  
احادیث مبارکہ میں جؤ کے فوائد کی روشنی میں معدہ و آنتوں کے السر کے مریضوں کو تلبینہ دیا گیا۔ السر کا ہر مریض دو سے تین ماہ میں درست ہو گیا۔ جب کہ بہترین علاج کے ذریعے یہ علاج دو سال سے کم عرصہ میں ممکن نہ تھا۔
پیشاب میں خون آور پیپ کے مریضوں میں وجہ چاہے کچھ بھی ہو مناسب علاج کے لیے جؤ کا پانی اگر شہد میں ڈال کر پلایا جائے تو یہ تکلیف پندرہ روز میں ختم ہو جاتی ہے۔ بعض اوقات گردے سے پتھری خارج ہو جاتی ہے۔ پرانی قبض کے لیے جؤ کے دلیہ سے بہتر محفوظ کوئی اور دوا نہیں دیکھی گئی۔ 

مضر و مصلح جؤ 
سرد مزاج والوں کو مضر ہے، جؤ نفخ پیدا کرتا ہے۔ گھی اور مکھن، شکر، مصری اور گوشت کا شوربہ اس کی اصلاح کرتے ہیں۔ جؤ کو ہمیشہ کھاتے رہنے سے پیٹ میں مروڑ اور ریاح پیدا ہوتے ہیں۔ گرم مصالحہ سے اس کی اصلاح ہوتی ہے۔ 

بدل:   
جؤ  کا بدل مونگ ہے۔ 

وٹامن ’’سی‘‘ کا خزانہ:   
جؤ کو پانی سے نم دیں تو وہ پھوٹتے اور اگتے ہیں۔ اس وقت انہیں بھاڑ یا بھٹی میں خشک کر لیا جائے تو ان میں وافر مقدار میں وٹامن ’’سی‘‘ پیدا ہو جاتے ہیں۔ یہ پھوٹے ہوئے جؤ زود ہضم اور مقوی ہوتے ہیں۔ 

جؤ کا ستو: 
گیہوں یا جؤ کو صاف کر کے پانی میں بھگو دیا جاتا ہے اور دھوپ میں خشک کر کے بریاں کیا جاتا ہے۔ پھر اس کو پیس کر استعمال کرتے ہیں۔ طبی حوالے سے یہ ایک معتدل غذا ہے۔ سریع الہضم ہے۔ مسکن حرارت ہے۔ آج کے دور میں لوگ آٹا چھان کر روٹی پکاتے ہیں اور بھوسی ضائع کر دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معدہ اور نظام ہضم کی متعدد بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ یہی بھوسی بغیر چھنے کی شکل میں ستو کا نعم البدل ہے۔
حضور اکرمe کا دستور تھا کہ آپe بغیر چھنے آٹے کو ستو کی شکل میں نوش فرماتے تھے۔ غزوات میں ستو کے استعمال کی بکثرت روایات ملتی ہیں۔ بلوغ المرام میں مرقوم ہے کہ اہل عرب بغیر چھنے آٹے کے استعمال کو ترجیح دیتے تھے اور اس کا استعمال مختلف شکلوں میں کرتے تھے۔ ان کھانوں کی مختلف تراکیب ہیں۔ چند نام و ترکیب استعمال نقل کیے جا رہے ہیں:
غذیرہ:ـ  جؤ  کے آٹے کے اوپر دودھ دوہا جاتا اور پھر گرم پتھروں پر رکھ کر پکا لیا جاتا تھا۔
حریقہ:  جؤ کے آٹے کو پانی یا تازہ دودھ میں گوندھ کر قدرے کھجور کی مٹھاس ڈال کر گاڑھا پی لیا جاتا تھا۔
رعیثہ:  جؤ کے آٹے کو شیرے میں ملا کر پکایا جاتا تھا۔
تلبینہ :  جؤ کے آٹے یا گندم کی بھوسی اور شہد ملا کر تیار کیا جاتا تھا۔ مگر متفرق روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ تلبینہ یا گیہوں کو دَل کر دودھ میں پکایا جاتا تھا۔ جو بیماروں کو کھانے کے لیے بطور خاص دیا جاتا تھا۔
الغرض بغیر چھنا روٹی کی شکل میں یا ستو کی شکل میں، حضور اکرمe نے تمام زندگی استعمال فرمایا اور اسی طرح استعمال کرنے کی ہدایت فرمائی۔ جس کے متعلق اطباء جدید اور بسیار تحقیق لائے اور پھر اس کے فوائد بیان کیے۔
مصور ہربل ہینڈ بک کی مصنفہ جو لیٹ وے، پیراکلی لیوی نے لکھا ہے کہ دوائی خواص کا حامل اناج ہے، خون کے جوش کو کم کرتا ہے اور اندرونی اعضاء کو مفید ہے۔ خاص طور پر گردوں پر اچھا اثر کرتا ہے، گردوں اور مثانہ کی عام تکلیفوں کے علاوہ یہ بیماروں اور شیر خوار بچوں کی غذا ہے، اس کا کہنا ہے کہ جؤ کو ابال کر نچوڑ لیا جائے اور لیموں کا رس ملا کر استعمال کیا جائے۔ ماڈرن انسائیکلو پیڈیا الف ہریز کے مصنف کا کہنا ہے کہ بیماری سے اٹھنے والوں کے لیے بہترین غذا ہے۔ انہوں نے بھی اب جؤ استعمال کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
.
تحریر: جناب حکیم راحت نسیم سوھدروی

ذہانت تیز کرنے والی غذائیں

ذہانت قدرتی ہوتی ہے۔ اگر دماغ صحت مند اور کسی قسم کی دماغی پیچیدگی نہ ہو تو دماغ کی کارکردگی بڑھ جاتی ہے۔ البتہ علم وہنر سے اسے مزید چمکایا جا سکتا ہے۔ بلا شک ذہانت قدرتی اور پیدائشی ہوتی ہے اور اسے عطیہ خداوندی قرار دینا چاہیے۔ تا ہم اس کا صحت مند جسم اور غذا سے گہرا تعلق ہے۔ اسی بنا پر کہا جاتا ہے کہ صحت مند جسم ہی صحت مند دماغ کا مالک ہوتا ہے۔ ایسا ممکن نہیں کہ صحت سے عاری شخص صحت مند دماغ کا مالک ہو۔ صحت مند دماغ اور صحت مند جسم کے لیے صحیح غذا کا ہونا ضروری ہے۔ اگر غذا صحیح اور متوازن نہ ہو تو انسان دماغی اور جسمانی طور پر کمزور ہوجاتا ہے جس کے اثرات ذہانت پر بھی ہوتے ہیں اور سارا جسمانی نظام متاثر ہوتا ہے۔
آج کے دور میں طرز زندگی اور غذائی عادات کی تبدیلیوں نے انسانی صحت اور دماغ کو متاثر کر دیا ہے۔ جس کے نتیجے میں ذہنی استعداد کار یا ذہانت متاثر ہو رہی ہے۔ نسیان یا یادداشت میں کمی جیسے عوارضات بڑھ رہے ہیں۔ طب وصحت کے ماہرین کہتے ہیں کہ بعض غذائیں دماغی قوتوں کو توانا رکھتی ہیں جس سے ذہانت میں اضافہ ہوتا ہے۔ وہ مائیں جو اپنے بچوں کو ایسی مفید غذائیں دیتی ہیں اس سے ان کی صحت ہی بہتر نہیں رہتی بلکہ ان کی ذہنی صلاحیتیں اور دماغی استعداد کار اپنے ہم عمر ساتھیوں سے بڑھ جاتی ہے۔ پوری دنیا میں اعلیٰ تعلیمی کامیابیوں اور کامرانیوں کے لیے آئی کیو کو معیار بنایا جا رہا ہے۔ یعنی قابلیت اور اہلیت کو ذہانت کی پیمائش کے ذریعے تسلیم کیا جا رہا ہے۔ اس طرح ذہنی صحت اور جسمانی صحت کی طرف توجہ دینا انتہائی اہم ہے۔
بڑھاپے کے مسائل میں یاد داشت کی کمی (الزائمر) عام مسئلہ بن گئی ہے۔ اس طرح وہ تمام لوگ جو ذہانت کو قائم اور یاد داشت کو بہتر بنانے کے خواہش مند ہیں انہیں دماغی طاقت کی طرف توجہ دینا ہو گی۔
ماہرین طب وصحت کا کہنا ہے کہ صحت مند جسم میں جب گردش خون (خون کا دورہ) باقاعدہ ہوتا ہے تو جسم اس کے ذریعے غذائیں دماغ کے سامنے پیش کرتا ہے جن میں سے دماغ اپنی ضرورت کی غذائیں منتخب کر لیتا ہے۔ مگر جب دوران خون یعنی خون کا دورہ باقاعدہ نہ ہو تو دماغ کو اس کی ضرورت کے مطابق غذا نہیں ملتی جس کے نتیجے میں دماغ ضعف کا شکار ہونے لگتا ہے۔ ایسی صورت میں دماغی کمزوری کے سبب یاد داشت میں کمی ہونے لگتی ہے۔
انسانی زندگی میں بچپن سے نوجوانی کی طرف گامزن ہوتے ہوئے مناسب غذا کا استعمال بہت ضروری ہوتا ہے۔ یہ بڑا اہم دور ہوتا ہے جب غذا کا خیال رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ ایسے وقت میں غذائی کمی کے سبب خون کی کمی ہو سکتی ہے جس سے گردش خون میں فرق آئے گا اور جسم کا اعصابی نظام شکست وریخت کا شکار ہونے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے دیکھا گیا ہے کہ اکثر بچے جو بچپن میں صحت مند وتوانا ہوتے ہیں نوجوانی میں خون کی کمی کا شکار ہو جاتے ہیں جس سے جسمانی طور پر کمزوری ہو جاتی ہے اور پھر دماغی طور پر صحت مند نہیں رہتے‘ ان کی یاد داشت متاثر ہوتی ہے اور آئی کیو لیول کم ہو جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کو دماغی یاد داشت بہتر بنانے کے لیے ادویہ کی بجائے غذائی اشیاء پر توجہ دینا چاہیے۔ ماہرین طب وصحت کا کہنا ہے کہ فاسفورس دماغی طاقت کے لیے بہت اہم ہے۔ لہٰذا ایسی غذائی استعمال کرنا چاہئیں جن میں فاسفورس اور لحمیات کی مقدار زیادہ ہو۔ ایسی غذاؤں میں مچھلی کا گوشت سرفہرست ہے کیونکہ مچھلی میں فاسفورس بکثرت ہوتا ہے۔ اسی طرح انڈا‘ دودھ‘ مکھن اور بادام بھی مفید ہیں۔ مغزیات‘ پستہ‘ اخروٹ‘ کشمش‘ اور پنیر کے علاوہ چنے‘ مٹر اور سویا بین دماغ کے لیے مفید ہیں۔ فاسفورس کے علاوہ وہ سب اجزاء ہوتے ہیں جو اعصاب اور عضلات کو توانائی دیتے ہیں۔ ہلکی زود ہضم غذائیں دماغ کو ترو وتازہ اور بیدار رکھتی ہیں۔ سرخ گوشت سے بچ کر رہیں۔ درج ذیل غذاؤں کا استعمال دماغ کو تقویت دیتا ہے‘ اسی طرح ذہانت بھی بڑھتی ہے۔

بادام:  
بادام مغزیات میں سرفہرست ہے۔ یہ ایک مفید صحت بخش غذا ہے جو دماغ اور اعصاب کو قوت دیتی ہے۔ بینائی میں بھی فائدہ مند ہے۔ روزانہ پانچ سے سات بادام‘ رات پانی میں بھگو کر صبح چھیل کر دودھ کے ساتھ کھانا چاہئیں۔ ان کا مسلسل استعمال دماغی کمزوری سے محفوظ رکھتا ہے۔ ایک صورت یہ بھی ہے کہ بادام کی پانچ چھ عدد مغز گرائنڈ کر کے پیس لیں اور دودھ حسب ضرورت میٹھا کر کے اس میں ملا کر روزانہ صبح پی لیا کریں۔

دودھ:  
دودھ ایک مکمل غذا ہے‘ ہر عمر کے افرد کے لیے یکساں مفید ہے۔ انسان صدیوں سے گائے‘ بھینس‘ بکری‘ اونٹنی اور بھیڑ کا دودھ بطور غذا استعمال کرتا چلا آ رہا ہے۔ دودھ میں تمام صحت بخش اجزاء پائے جاتے ہیں۔ دودھ جسمانی طاقت اور دماغی کمزوری کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ دودھ روزانہ صبح یا سہ پہر شہد خالص ملا کر پینا چاہیے اور ہمیشہ باقاعدگی سے پینا چاہیے۔

سیب:  
سیب‘ دنیا بھر میں ملنے والا اور پھلوں میں سب سے زیادہ توانائی بخش ہے۔ تمام عمر کے لوگ کھا سکتے ہیں۔ سیب میں فاسفورس تمام پھلوں سے زیادہ پایا جاتا ہے اور چھلکوں میں حیاتین ’’ج‘‘ کی بڑی مقدار پائی جاتی ہے۔ سیب خون صالح پیدا کرتا ہے۔ دماغ کے لیے ایک مؤثر غذائی ٹانک ہے۔ قوت حافظہ بڑھاتا ہے۔ سیب میں پائے جانے والا ایک ایسڈ جگر‘ دماغ اور آنتوں کے لیی بہت مفید ہے۔ کمزور دماغئ اعصاب اور قلب لوگوں کے لیے بہت مفید ہے۔

آملہ:  
غذائی اور دوائی افادیت رکھتا ہے۔ دماغ کو تقویت دیتا ہے اور یاد داشت بڑھاتا ہے۔ اطباء صدیوں سے اپنی ادویہ میں استعمال کرتے آ رہے ہیں۔ حیاتین ’ج‘ آملہ میں بکثرت موجود ہوتی ہیں۔ خشک آملوں کا سفوس بنا لیں اور برابر وزن شکر ملا لیں‘ روزانہ ایک سے دو چمچہ تازہ پانی سے کھانا مفید ہے۔ آملہ کا مربہ بھی بنایا جاتا ہے جو دماغی طاقت کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ اس طرح بصارت پر بھی خوشگوار اثر پڑتا ہے۔ تازہ آملہ کا ایک چمچہ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

بیر:  
بظاہر یہ ایک چھوٹا سا پھل ہے مگر ضروری غذائی اجزاء سے بھر پور ہے۔ ایک سو گرام بیروں میں 74 کیولریز(حرارے) ہوتے ہیں۔ بیر جسم میں گلو ٹاسک ایسڈ کا اخراج بڑھا دیتا ہے۔ اس طرح دوران خون تیز ہو کر دماغ کی کارکردگی بڑھا دیتا ہے۔ بیر استعمال کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ مٹھی بھر بیر خشک آدھے لیٹر پانی میں اس وقت تک ابالیں کہ پانی نصف رہ جائے پھر ضرورت کے مطابق شہد ملا کر رات سونے سے قبل پی لیا جائے۔

کالی مرچ:  
کالی مرچ کو مصالحوں کی ملکہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ اعصاب کی طاقت کے لیے ٹانک کا درجہ رکھتی ہے۔ یاد داشت کو بہتر بنانے میں بہت مفید ہے۔ چٹکی بھر کالی مرچ کا سفوف شہد خالص ایک چمچ میں ملا کر روزانہ چاٹ لینا کمزور دماغ والوں کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے۔
.
تحریر: جناب حکیم راحت نسیم سوھدروی

موسم گرما بخیر وخوبی گزاریے

ہمارے ہاں پاکستان میں اور خصوصاً خطہ پنجاب میں مئی تا جولائی سورج پوری آب وتاب سے چمکتا ہے۔ جس کے نتیجے میں تیز دھوپ اور تپتی ہوئی ہواؤں کے باعث تلملا دینے والی حدت ہوتی ہے۔ تمازت آفتاب کے باعث انسان ہی نہیں جانور اور پودے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ ہر کوئی پیاس سے نڈھال اور سائے میں ہی عافیت خیال کرتا ہے۔ گرمی میں باہر نکلیں تو قیامت کی گرمی جیسے الفاظ منہ سے نکلتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود باہر نکلنا اور کام کاج کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ موسم نہ صرف بچوں‘ بلکہ بڑوں کو بھی گھر سے باہر تفریحات سے لطف اندوز ہونے کی دعوت دیتا ہے۔ جب کرکٹ‘ بیڈ منٹن‘ ٹینس‘ تیراکی‘ فٹ بال‘ کبڈی اور دوسری ورزشی سرگرمیاں  پوری شدت سے اپنی جانب راغب کر رہی ہوں تو انسان حد سے تجاوز کر جاتا ہے۔ جس سے زیادہ مشقت کی وجہ سے صحت کے سنگین مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ ماہرین طب وصحت کی رائے ہے کہ یہ تمام سرگرمیاں اگر موسمی تقاضوں کے باعث حد اعتدال میں ہوں تو موسمی شدتوں سے بچا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے اس شدید موسم میں طرز زندگی کے بنیادی اصول ہر ایک کو معلوم ہونا چاہئیں۔ ہم ذیل میں اس موسم کی شدتوں سے محفوظ رہنے اور صحت کو برقرار رکھنے کی تدابیر کا ذکر کرتے ہیں۔

غذا  
موسم گرما میں غذائی معمولات میں تبدیلی ایک لازمی ضرورت ہے۔ کیونکہ موسم گرما میں درجہ حرارت میں اضافہ کی وجہ سے پسینہ بہت زیادہ آتا ہے جس سے قوت ہاضمہ متاثر ہوتی ہے۔ بھوک میں کمی ہو جاتی ہے۔ چٹ پٹے کھانے‘ کڑاہی گوشت‘ مرغ روسٹ‘ نشاستہ دار اشیاء کا استعمال کم کر دینا چاہیے اور انڈے کا استعمال ترک کر دینا ہی بہتر ہے۔ کیونکہ لحمیات کا فالتو مادہ یوریا جسم کے لیے مضر ہے۔ عام حالات میں اسے گردوں کے راستے پیشاب میں فوراً خارج کر دیا جاتا ہے۔ موسم گرما میں پیشاب کی کمی ہو جاتی ہے کیونکہ پانی بذریعہ پسینہ خارج ہو جاتا ہے۔ اس طرح یوریا کے جسم سے اخراج کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔ اگرچہ جسم میں اس تبدیلی کے تدارک کی صلاحیت موجود ہوتی ہے تا ہم احتیاط مناسب ہے۔ اس موسم میں مچھلی جلد ہضم نہیں ہوتی۔ پھر جسم جلد فساد کو قبول کرتا ہے جس سے جلدی عوارضات ہو سکتے ہیں۔ اس موسم میں بھوک کم لگتی ہے اس لیے جسم کو درکار غذا کا اندازہ اس سے نہیں لگانا چاہیے۔ بلکہ جسم کی صرف شدہ توانائی سے کرنا چاہیے اور موسم گرما میں بھی جسم کو اپنی صحت قائم رکھنے کے لیے اتنی ہی توانائی درکار ہے جتنی کہ موسم سرما  میں۔ موسم گرما میں غذا خواہ کم لی جائے مگر جسم کو مطلوب غذائیت کے حوالے سے کمی نہیں آنی چاہیے۔ فطرت موسمی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے از خود اہتمام کرتی ہے۔ اگرچہ پھل اور سبزیاں تو ہر موسم میں بہ کثرت استعمال کرنا چاہئیں مگر موسم گرما میں ان کا استعمال زیادہ  مناسب ہے۔ اس طرح نہ صرف جسم کو مطلوب غذائیت پوری ہو گی بلکہ حرارت سے بھی بچاؤ ہو گا۔ ہمارا جسم 80 فیصد سے زیادہ پانی پر مشتمل ہے اور قدرتی طور پر پائی جانے والی غذاؤں میں یہ دونوں چیزیں عموماً اتنا ہی پانی اپنے اندر رکھتی ہیں۔ اس طرح بہت زیادہ پانی استعمال نہ کرنے کی صورت میں بھی پانی کی مطلوبہ مقدار حاصل ہو جاتی ہے۔ اس موسم میں ہونے والے پھلوں اور سبزیوں میں پانی کی کافی مقدار ہی نہیں ہوتی بلکہ تمام غذائی اجزاء متوازن ہوتے ہیں۔ نیز حیاتین بھی بہ کثرت پائے جاتے ہیں۔ جس سے مدافعتی نظام مضبوط ہوتا ہے۔ مثلاً کدو‘ ٹنڈے‘ ککڑی‘ حلوہ کدو‘ کھیرا جب کہ پھلوں میں آلو بخارا‘ خربوزہ‘ تربوز‘ گرما‘ آڑو اور انگور وغیرہ موجود ہوتے ہیں۔ اس طرح ہم ان کا استعمال کر کے نہ صرف غذائیت بلکہ موسمی شدتوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ قدرت موسم میں جن غذاؤں کا اہتمام کرتی ہے وہ قدرتی طور پر موسمی تقاضوں کے عین مطابق ہوتے ہیں۔ البتہ اس موسم میں باسی اشیاء کا استعمال نہ کیا جائے کیونکہ ان میں گلنے سڑنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔

 پانی اور نمک کی تلافی:
موسم سرما کے بعد موسم گرما میں پسینہ بہت زیادہ آتا ہے۔ پسینہ کے ساتھ جسم سے نمک کا بھی اخراج ہوتا ہے۔ پانی کا جس قدر حصہ بذریعہ پسینہ خرچ ہوتا ہے اگر وہ دوبارہ جسم میں پہنچ جائے تو اس طرح جسم کی توانائی برقرار رہے گی بلکہ جسم کا درجہ حرارت بھی اعتدال میں رہتا ہے۔ موسم گرما میں پسینہ کے باعث ہماری جلد گیلی رہتی ہے جس سے جسم کا درجہ حرارت نارمل رہتا ہے۔ مگر پسینہ کے زیادہ اخراج کے باعث پانی اور نمکیات کی جسم میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ اس کمی کے باعث پیاس بہت لگتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موسم گرما میں پانی کا استعمال بڑھ جاتا ہے مگر ہم نمکیات کو بھول جاتے ہیں۔ موسم گرما میں جسم میں پانی اور نمک کی کمی دور کرنے کے لیے لیموں کا رس تازہ یا ٹھنڈے پانی میں قدرے نمک ملا کر پینا مفید ہے۔ ٹھنڈے مشروبات جن میں قدرے چینی اور نمک ہو مثلاً لسی‘ جَو یا ستو کا شکر ملا شربت اور بزوری کا شربت پینا بھی مفید ہے۔ نمک استعمال کرنے سے ضائع شدہ نمک جسم میں واپس آجاتا ہے اور یوں کمزوری کا احساس نہیں ہوتا۔ چینی کے استعمال سے نمکیات کو جسم میں جذب ہونے کا موقع مل جاتا ہے۔ لیکن جہاں تک ذیابطیس اور ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں کا تعلق ہے وہ چینی اور نمک کا استعمال اپنے معالج کے مشورے سے کریں۔
کولڈ ڈرنکس (مشروبات) فائدہ کی بجائے مضر ہیں کیونکہ یہ وقتی تسکین دیتے ہیں۔ بعض افراد اس موسم میں برف کا بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ خیال رکھیے کہ برف کا استعمال حد اعتدال میں کریں وگرنہ مسائل صحت پیدا ہو سکتے ہیں۔ پانی ہمیشہ صاف استعمال کریں۔ مناسب تو یہ ہے کہ آبی رسد کے منظور شدہ نظام کے علاوہ دو بڑے ذرائع سے حاصل کردہ پانی کو ابال کر جراثیم سے پاک کر لیا جائے صرف ایک منٹ تک ابالنا کافی ہے۔ جو لوگ موسم گرما میں سرد مقامات پر جاتے ہیں ان کو بھی چشموں کا پانی ابال کر استعمال کرنا چاہیے۔ اگرچہ یہ پانی خوش ذائقہ اور بظاہر صاف معلوم ہوتا ہے تا ہم ان میں تپ محرقہ‘ پیچش اور دوسرے امراض کے جراثیم ہو سکتے ہیں۔ ایک منٹ تک اُبالنا جراثیم سے پاک کرنا ہے‘ تازہ ہوا اور غذا کی طرح صاف پانی کا استعمال بھی موسم گرما کے عوارضات سے بچنے کے لیے ضروری ہے۔

غسل  
جسم کی صفائی سے اچھی صحت کا تعلق ضروری ہے۔ مگر یہ تعلق موسم سرما اور گرما دونوں کے لیے ہے۔ روزانہ غسل سے صحت پر خوش گوار اثر ہوتا ہے اور انسان معاشرتی اعتبار سے بھی پسندیدہ بن جاتا ہے۔ موسم گرما میں چونکہ پسینہ زیادہ خارج ہوتا ہے اور جسم کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے‘ اس لیے دو بار غسل کرنا مفید ہے۔ تیراکی کے شائقین کو کھانے کے فوراً بعد تیراکی نہیں کرنا چاہیے کیونکہ کھانے کے بعد ہاضمے کے عمل کے لیے جسم کا خون معدے میں کھینچ کر آتا ہے‘ کھانے کے فوری بعد تیراکی سے معدہ کا خون عضلات میں منتقل ہو سکتا ہے۔ اس طرح بے ہوشی اور ڈوبنے کے امکانات ہو سکتے ہیں۔ آلودہ پانی بھی تیراکی کے لیے مضر ہے۔ تیراکی صاف پانی میں اور کھانے کے کم از کم دو گھنٹے بعد کی جائے۔

تیز دھوپ سے بچیں:
موسم گرما میں سخت دھوپ یا ہوا میں باہر نکلنے سے اجتناب کریں۔ سخت دھوپ میں نکلنے یا سخت ورزش کرنے سے لو لگ سکتی ہے۔ لو لگنے کی صورت میں سر درد اور بخار ہو جاتا ہے۔ پیاس شدت سے لگتی ہے۔ دل تیزی سے دھڑکتا ہے اور کمزوری ہو کر بے ہوشی ہو سکتی ہے۔ طلباء وطالبات سکول واپسی پر سر پر گیلا کپڑا رکھیں۔ ہیٹ پہننا مناسب ہے۔ دھوپ سے ہٹ کر چلا جائے یا چھتری کا استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔ دھوپ میں اشد ضرورت سے ہی باہر نکلا جائے۔
اگر دھوپ میں نکلنا ضروری ہو تو مناسب مقدار میں پانی‘ مشروبات اور قدرے نمک کا استعمال کریں۔ کام کے دوران وقفے وقفے سے پانی پئیں۔ چائے‘ کافی اور مرغن اشیاء کا استعمال نہ کریں۔ چھوٹے بچے‘ بڑی عمر کے لوگ‘ کھلاڑی اور دھوپ میں کام کرنے والے جلد لو کا شکار ہوتے ہیں۔ نیز سرد علاقوں سے گرم علاقوں کی طرف منہ کرنے والے اپنا کام صبح وشام کے اوقات میں کریں۔ گہرے رنگ کے کپڑے استعمال نہ کریں۔ کیونکہ یہ جلد گرمی کو جذب کرتے ہیں جبکہ ہلکے رنگوں میں سوتی کپڑوں کا استعمال مناسب ہے‘ لو لگنے کی صورت میں معالج سے رجوع کریں۔

حشراتی خطرات:
موسم گرما میں مکھیوں اور مچھروں کی کثرت ہو جاتی ہے جن کی وجہ سے بیماریں پھیلانے والے جراثیموں کی منتقلی دیکھی گئی ہے۔ ہم اپنے ارد گرد کے ماحول کو صاف بنا کر اور جدید حشرات کش ادویہ کے ساتھ تپ محرقہ‘ پیچش‘ اسہال‘ ملیریا اور ان کے باعث پیدا ہونے والے دیگر امراض کے خطرات سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔
.
تحریر: جناب حکیم راحت نسیم سوھدروی

بصارت کو بہتر بنانے والی غذائیں

آنکھیں قدرت کا انمول عطیہ ہیں‘ زندکی کی تمام بہاریں آنکھوں سے ہی ہیں۔ آنکھوں کی قدر واہمیت کسی نابینا سے پوچھیے۔ ہر آنکھ کے پیچھے پردہ چشم کے مرکز میں خصوصی بافتوں کا ایک گچھا ہوتا ہے جسے جوف چشم کہتے ہیں۔ جب پردہ چشم کا جوف خراب ہونے لگتا ہے تو اس خرابی کی وجہ سے انسان بصارت سے محروم ہو جاتا ہے یا بصارت کم ہو جاتی ہے۔ یہ مرض عموما 60 سال کی عمر کے بعد ہوتا ہے۔ ایک اندازہ ہے کہ دنیا میں 25 ملین سے زیادہ افراد عمر بڑھنے کے باعث آنکھوں کے پٹھوں کی کمزوری اور سفید موتیا جیسے امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ امریکن بصارت پیمائش ایسویسی ایشن کے جائزے کے مطابق یہ امراض بصارت کے خاتمے یا کمی کا باعث بن جاتے ہیں۔ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق اس مرض کا سبب ناقص غذا ہے اور صحت بخش غذا میں شامل مقویات جن میں لیوٹین اور زیکس تھن جیسے اہم غذائی اجزاء ہوتے ہیں ان کے باقاعدہ استعمال سے آنکھوں کے امراض سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ حیاتین اور معدنیات وغیرہ پردہ چشم کی کمزوری اور موتیا جیسی بیماریوں کا خطرہ کم کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ایسی غذا جن میں حیاتین ج‘ حیاتین ای‘ کیروٹین‘ زنک اور اومیگا 3 فیٹی ایسڈ سے بھر پور ہوتی ہیں۔ ان سے نہ صرف عمر میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ ان امراض کا راستہ روکنے میں مدد گار ہے۔ یہ اجزاء سبز پتوں والی ترکاریوں مکئی‘ آم‘ آڑو اور بہت سی دوسری سبز سرخ ترکاریوں اور پھلوں  میں پائے جاتے ہیں۔ اندازہ ہے کہ جن افراد کی غذاؤں میں لیوٹین کا حصہ زیادہ ہوتا ہے ان میں چشم کے امراض کی شرح بہت کم ہوتی ہے۔ تمباکو نوشی کرنے والوں کو جوفِ چشم کے مرض کا امکان زیادہ ہوتا ہے کیونکہ تمباکو نوشی کا جسم  میں موجود لیوٹین پر زیادہ منفی اثر ہوتا ہے۔ اس طرح لیوٹین حیاتین ج پر بھی مضر اثر ڈالتی ہے۔ ذیل میں ہم ان غذاؤں کا ذکر کرتے ہیں جنہیں ہم اپنی خوراک میں شامل کر کے نہ صرف اپنی بصارت بہتر بنا سکتے ہیں بلکہ چشم کے امراض سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔

انڈا  
ناشتہ میں پروٹین سے بھر پور انڈا ضرور شامل کریں‘ انڈے میں اہم غذائی اجزاء اور حیاتین پائے جاتے ہیں۔ انڈے کی زردی میں لیوٹین اور زیکس تھن سب سے زیادہ پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ حیاتین ای اور اومیگا 3 جیسے اہم اجزاء پائے جاتے ہیں۔ اگر دیسی انڈا میسر ہو تو ہفتے میں چار روز انڈا کھا لینا چاہیے۔ آج کے دور میں پولٹری فارم کے باعث جو انڈے میسر ہیں ان میں کولیسٹرول کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے پولٹری کے انڈے جن میں کولیسٹرول بڑھا ہوا اعتدال میں استعمال کریں اور لیوٹین کی ضرورت پھلوں اور سبزیوں سے پوری کریں۔

مالٹا 
یہ رس بھرا پھل حیاتین ج سے بھر پور ہوتا ہے۔ جو آنکھوں کی بافتوں (ٹشوز) کے لیے بہت اہم غذائی جزو ہے۔ حیاتین ج آنکھوں کی بافتوں کو اس نیلی روشنی سے محفوظ رکھتی ہے جو سورج کی روشنی میں پائی جانے والی ضرر رساں تابکاری ہے۔ سفید موتیا بند کے بچاؤ میں مدد دیتی ہے۔ اینٹی اوکس ڈینٹ کی تشکیل میں کردار ادا کرتا ہے۔

پالک 
پالک کا ایک کپ غذائیت سے بھر پور لیوٹین اور زیکس تھن سے بھر پور ہوتا ہے۔ پالک کو صحت مندانہ مقدار میں لینے کے لیے سینڈوچز میں سلاد اور سبزی کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔ اس میں خصوصیات بھی موجود ہے اگر اسے پکا کر استعمال کیا جائے تو اس میں موجود لیوٹین جسم میں آسانی سے تحلیل ہو جاتی ہے۔

مکئی (سٹے) 
یہ نہ صرف مزے دار ہوتے ہیں بلکہ لیوٹین اور زیکس تھن سے بھر پور ہوتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق مکئی کو جس قدر پکایا جائے اس میں اسی قدر لیوٹین اور اینٹی اوکسی ڈینٹ کی مقدار میں اضافہ ہوتا ہے۔ مکئی کو سوپ‘ انواع واقسام کے سیرپ اور مختلف کھانوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔

گوبھی 
یہ سبزی حیاتین ج‘ فائبر (ریشہ) سے بھر پور ہوتی ہے۔ اس میں بصارت بڑھانے والے جزو لیوٹین اور زیکس تھن پائے جاتے ہیں۔ گوبھی کی شاخ کو آملیٹ‘ پیزا‘ توس‘ میکرونی‘ سیلڈ وغیرہ میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔

کرم کلا 
یہ بند گوبھی کی ایک قسم ہے جس میں حیاتین اور اینٹی اوکسی ڈینٹ کی اہم مقدار ہوتی ہے۔ اس میں لیوٹین اور زیکس تھن جیسے اہم اجزاء جو بصارت کے لیے مفید ہیں موجود ہوتے ہیں۔ اس کے ایک کپ سے 23.8 ملی گرام لیوٹین اور زیکس تھن حاصل ہوتے ہیں۔ سلاد اور ترکاری کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے پتوں کو چپس کی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ مرض کینسر میں بھی مفید ہے۔
اس کے علاوہ میٹھا کدو‘ لال انگور‘ ہرے مٹر‘ کھیرہ‘ سنگترے کا رس‘ خربوزہ‘ آم‘ سیب‘ گاجر‘ شکر قندی اور خشک خوبانی اور ٹماٹر بہی لیوٹین اور زیکس تھن کی موجودکی بصارت کے لیے ان اشیاء کا استعمال مفید ہے۔
.
تحریر: جناب حکیم راحت نسیم سوھدروی

موسم برسات کی بیماریاں

ہمارے ہاں موسم برسات عام طور پر جولائی میں شروع ہوتا ہے اور ستمبر کے شروع میں ختم ہو جاتا ہے۔ اس موسم میں شدید بارشوں کی وجہ سے جگہ جگہ پانی کھڑا ہو جاتا ہے۔ ندی نالے اور دریا پانی سے بھر جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ پانی کی زیادتی سے سیلاب آ جاتا ہے۔ جس سے فصلوں کو نقصان ہوتا ہے اور آبادیاں متاثر ہوتی ہیں۔ سیلابی پانی سے صرف آبادیاں ہی متاثر نہیں ہوتیں بلکہ بارشوں کے پانی اور سیلابی پانی سے تعفن پھیلتا اور وبائی امراض پیدا ہوتے ہیں۔ چونکہ ہمارے ملک میں عام حالات میں بھی آلودگی بہت زیادہ ہے، برساتی پانی سے نباتات و حیوانات کی بدبو ماحولیاتی آلودگی میں مزید اضافہ کرتی ہے۔ اگر اس موسم میں مؤثر تدابیر اختیار نہ کی جائیں اور حفظان صحت کے اصولوں پر عمل نہ کیا جائے تو وبائی امراض پھوٹ پڑتے ہیں۔ اس لیے بارشوں اور سیلابی پانی کے بعد کیچڑ کو اچھی طرح صاف کیا جانا چاہیے۔ مناسب ہو گا اگر فنائل ڈال کر صاف کیا جائے۔ کمروں کو کھلا رکھا جائے تا کہ تازہ ہوا اور دھوپ سے خشک ہوں۔ موسم برسات میں کمروں کو حرمل کی دھونی ہر ہفتے دیں اور گھر میں جراثیم کش ادویہ کا سپرے کریں۔ 

حفاظتی تدابیر:  
  • موسم برسات میں پانی ہمیشہ ابال کر پئیں۔ 
  • پانی میں پوٹاشیم پرمگنیٹ ڈال کر استعمال کریں۔ ایک گلاس میں تقریباً ایک گرام اور ٹینکی ایک ہزار لیٹر میں ۱۲ ملی لیٹر کی مقدار کافی ہے۔
    جسمانی صفائی کے لیے روزانہ ایک بار غسل ضرور کریں اور لباس روزانہ تبدیل کریں۔ سوتی اور ہلکا لباس پہنیں۔
  • گھروں کے قریب پانی کھڑا نہ ہونے دیں، گندگی کے بڑے ڈھیر جن کا اٹھانا مشکل ہو ان پر خشک مٹی ڈال دیں یا دافع عفونت ادویہ کا چھڑکائو کریں۔ مثلا مٹی کا تیل۔
  • گھروں میں صفائی کا خصوصی خیال رکھیں تا کہ مکھی، مچھر، کھٹمل، لال بیگ اور دیگر کیڑوں سے محفوظ رہے۔
  • اس موسم میں روم کولر کا استعمال نہ کیا جائے اور نہ ہی کھلے آسمان تلے سویا جائے۔ کیونکہ نمی والی ہوا جسم میں بخار کی سی کیفیت پیدا کر دیتی ہے جسم میں تنائو اور درد محسوس ہوتا ہے۔ مناسب ہے کہ سائے کی جگہ پر سویا جائے۔ مچھروں کی صورت میں مچھر دانی استعمال کریں۔

غذائی احتیاطیں: 
  • چونکہ ہمارے ہاں موسم سرما برسات مئی جون کی جھلسا دینے والی گرمی کے بعد آتا ہے اور موسم گرما میں شدید گرمی کی وجہ سے پانی اور دیگر میٹھے مشروبات کا بکثرت استعمال ہوتا ہے۔ جس سے ہمارے جسم میں نمکیات اور حیاتین کی کمی ہوجاتی ہے اور بیشتر مشروبات جسم کے لیے مفید نہیں رہتے، اس طرح جسم کی قوت اور اعضائے ہضم کے افعال صحیح نہیں رہتے۔ ان حالات میں موسم برسات میں پانی میں موجود جراثیم جلدی سے حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم صحیح غذائی احتیاط اور حفظان صحت کے اصولوں کی پاسداری کریں تو اس موسم کے عوارضات سے بچ سکتے ہیں:
    کھانا ہمیشہ بھوک رکھ کر اور تازہ کھائیں۔
  • بازاری کھانے جو حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق تیار نہ کیے گئے ہوں، استعمال نہ کریں۔
  • گلے سڑے پھل استعمال نہ کریں، بعض پھل مثلاً امرود، تربوز، خربوزہ، کھیرا کھانے میں احتیاط کریں۔
  • باسی اشیاء ہر گز نہ کھائیں، زیادہ عرصہ فریز ہوا گوشت نہ کھائیں۔ ٭ تلی ہوئی اشیاء سے احتیاط کریں۔
  • کھانا زود ہضم اور کم کھائیں۔ ذرا سی بداحتیاطی اور بسیار خوری پیٹ خراب کر دے گی‘ اس موسم میں پیٹ بہت جلد خراب ہوتا ہے اور پیچش لگ جاتے ہیں۔
  • پانی ہمیشہ ابال کر پئیں۔
  • چھوٹے بچوں کو برف کی قلفیاں اور گولے اور برف کا استعمال نہ کرائیں، نمکین لسی بغیر برف کے مفید ہے۔ ٭ کھانے پینے کی اشیاء ڈھانپ کر رکھیں۔
    موسمی امراض سے بچنے کے لیے اور ان کے خلاف مدافعتی نظام کو مضبوط بنانے کے لیے پیاز، لہسن، ادرک کا استعمال مفید ہے۔ سرکہ کا استعمال بھی امراض سے بچاتا ہے۔ ٭ پھل سبزیاں دھو کر اور تازہ استعمال کریں۔
  • بازاری مشروبات سے ہاتھ اٹھا لیں البتہ لیموں کی نمک ملی سکنجبین بہترین مشروب ہے جو متعدد عوارضات سے محفوظ رکھتا ہے۔
  • سرکہ موسم برسات کی بیماریوں کا بہترین علاج ہے۔ اگر سرکہ میں بھگوئے ہوئے پیاز استعمال کیے جائیں تو ہیضہ سے بچا جا سکتا ہے۔ سرکہ ٹھنڈک اور حرارت کا حسین امتزاج ہے جو فاسد اور غلیظ مادوں کو نکلانے اور طبیعت کو فرحت بخشتا ہے۔ جسم میں ادویات کے زہریلے اثرات کو ختم کرتا ہے۔ خون کو صاف کرتا ہے اور پھوڑے پھنسیوں سے بچاتا ہے۔ پیاس کو تسکین دیتا ہے۔ غذا کو جلد ہضم کرتا ہے۔ ہر قسم کی سوزش میں مفید اور جسم میں حرارت کو ختم کرتا ہے۔

موسم برسات کے امراض اور علاج   

ہیضہ:   
یہ اس موسم کا عام مرض ہے‘ ذرا سی بدپرہیزی سے ہیضہ ہو جاتا ہے۔ ہیضہ سے بچائو کے لیے سر کہ بھگوئے پیاز کا استعمال مفید ہے۔ ہیضہ کی صورت میں فی الفور قریبی معالج سے رجوع کریں۔ 

نزلہ و زکام: 
ایسی صورت میں نیم گرم پانی کے غرارے کریں اور آٹے کا چھان چھ گرام ایک کپ پانی میں جوش دے کر ہلکا نمک ملا کر گرم گرم پی لیں۔ 

کھانسی: 
ملٹھی چھ گرام ایک کپ پانی میں جوش دے کر پی لیں۔ 

ملیریا بخار:  
برگ تلسی ایک تولہ، کالی مرچ سو گرام، کالا نمک سو گرام لے کر چنے برابر گولیاں بنا لیں اور صبح نہار منہ اور رات کو دودھ یا پانی سے کھا لیں۔ 

خارش پھوڑے پھنسیاں:
نیم کے تازہ پتے ابال کر ٹھنڈا کر کے اس پانی سے غسل کریں اور گندھک آملہ سار ۱۲۰ ملی گرام صبح و شام پانی سے استعمال کریں، گرم و محرک اشیاء انڈا، مچھلی، مرچ، مصالحہ جات سے احتیاط کریں۔ 

پیچش:  
ایسی صورت میں اسپغول ثابت ۲۰ گرام دہی میں ملا کر دن میں دو تین مرتبہ کھا لیں۔ قے و متلی کی صورت میں نمکول استعمال کریں۔ 

ٹائیفائیڈ بخار:  
ایسی صورت میں گلو کے پتوں کا جوشاندہ دن میں تین بار پی لیں۔ 

سیلابی خارش:  
سیلابی پانی سے خارش بھی ہو جاتی ہے اور انگلیاں گل جاتی ہیں، ایسی صورت میں نیم کے تازہ پتوں کے جوشاندے سے غسل کریں اور انگلیاں دھوئیں۔ 

آشوب چشم:  
اگر آنکھوں میں جلن ہو تو عرق گلاب کے دو دو قطرے دن میں تین بار آنکھوں میں ٹپکائیں۔
.
تحریر: جناب حکیم راحت نسیم سوہدروی

لیموں ... وٹامن سی کا خزانہ

لیموں ایک معروف و مقبول، خوش ذائقہ، ساری دنیا میں پایا جانے والا اور سستے داموں آسانی سے ہر جگہ ملنے والا پھل ہے۔ اس کی کاشت سارا سال ہوتی ہے۔ ظاہری طور پر یہ ایک چھوٹا سا پھل ہے مگر اپنے مخفی اجزاء حیاتین سے بھرپور ہے اور حیاتین ج (وٹامن سی) کا تو بھرپور خزانہ ہے۔ جدید تحقیقات طب اس بات کی مظہر ہیں کہ انسانی جسم کی بقا اور تحفظ کیلئے حیاتین کی بڑی اہمیت ہے اور حیاتین کی کمی انسانی جسم کو مختلف عوارض کا شکار کر دیتی ہے۔ حیاتین ج (وٹامن سی) کی کمی سے مسوڑھوں سے خون آنا، مسوڑھوں میں ورم، صفراوی بخار اور ہڈیوں کی کمزوری اور شکست و ریخت جیسے امراض ہو سکتے ہیں۔ اس لیے معالج حضرات مسوڑھوں میں خون آنے یا ورم کی صورت میں وٹامن سی کی گولیاں دیتے ہیں لیکن لیموں کے استعمال سے ان گولیوں سے بچا جا سکتا ہے۔ نیز وٹامن سی کی کمی سے ہونے والے عوارضات سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔ یوں تو لیموں سارا سال ہوتا اور ملتا ہے مگر اس کا موسم پیداوار برسات ہے اور دوسرے پھلوں کی طرح یہ چھوٹا سا پھل بھی اپنے موسمی تقاضے خوب پورے کرتا ہے۔ پھل موسم کے مطابق کیفیت و عوارضات کے ازالے کے ساتھ ساتھ لذت و غذائیت فراہم کرتے ہیں۔ اس طرح لیموں وبائی امراض مثلاً پیٹ درد، اسہال، خارش اور گرمی کے دانوں میں گوناگوں فوائد کا حامل ہے۔ موسم برسات میں لیموں کی سکنجبین بہت مفید ہوتی ہے۔ قے، دست اور متلی میں لیموں پر کالی مرچ اور نمک لگا کر چٹائیں، دونوں وقت کھانے کے ساتھ پیاز پر لیموں نچوڑ کر نمک کا اضافہ کر کے استعمال کریں۔
لیموں کا تعلق ترش فروٹ (ترش خاندان) سے ہے۔ اس خاندان میں لیموں کے علاوہ سنگترہ، مالٹا، کنو، میٹھا اور چکوترا وغیرہ ہیں مگر لیموں اس خاندان میں سب سے فائدہ مند اور غذائی اجزاء سے مالا مال ہے۔
قدرت نے لیموں کو کثیر غذائی اجزاء سے سرفراز کیا ہے اس میں پچاس فی صد پانی کے علاوہ لحمی اجزائ‘ چکنائی اور نشاستہ دار اجزاء ہوتے ہیں۔ حیاتین الف قلیل مقدار میں جب کہ حیاتین ج کثیر مقدار میں ہوتی ہے۔ ہر ایک چھٹانک لیموں میں ۳۲ غذائی حرارے موجود ہوتے ہیں۔ لیموں کے کیمیائی تجزیہ کے مطابق اس میں حیاتین ج ۳۰ ملی گرام، کیلشیم ۲۰ گرام، فاسفورس ۱۴ ملی گرام کے علاوہ سٹرک ایسڈ جس قدر لیموں میں ہوتا ہے کسی اور پھل میں نہیں ہوتا۔
قدیم اطباء نے اس کی چند صفات معلوم کر کے اس کی سکنجبین بنا ڈالی جو ایک خوش ذائقہ، فرحت بخش اور لذیذ مشروب کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ مگر لیموں ایک خوش ذائقہ، صحت بخش پھل کے ساتھ ساتھ مفید دوائی غذا بھی ہے اور مرض یرقان جس کے علاج میں ایلوپیتھی سسٹم آف میڈیسن ناکام ہے کا شفا بخش علاج بھی ہے۔ لیموں کا چھوٹا سا سنہری پھل نہ صرف شفائی اثرات سے مالا مال ہے بلکہ صحت و توانائی میں بھی اپنا جواب نہیں رکھتا۔ امراض کے خلاف سب سے موثر ہتھیار، قوت مدافعت ہے۔ لیموں کا استعمال اس قوت کو مضبوط بناتا ہے اور خون کے سرخ ذرات پیدا کرنے میں بھی اہم کردار کا حامل ہے۔ آج کل نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں چہرے پر پھوڑے پھنسیاں پیدا ہونے کی شکایت ہے۔ یہ کیل دانے چہرے کے حسن کو متاثر اور شکل کو بدصورت بنا دیتے ہیں جس سے نوجوانوں میں نفسیاتی ناگواری کا احساس ہوتا ہے۔ ان کیل دانوں اور خارش کا سبب عموماً فساد خون ہے۔ نوجوان نسل ان سے نجات کے لیے اور جلد کے نکھار کے لیے کریموں کا بھرپور استعمال کرتی ہے مگر وہ نہیں جانتے کہ قدرت نے رنگت نکھارنے، رنگ کاٹنے کے لیے اس چھوٹے سنہری پھل میں کس قدر شفا رکھی ہے۔ لیموں کا استعمال جلد نکھارتا ہے، خون کے فساد ختم کر کے خون صاف کرتا، پھوڑے، پھنسیاں ختم کرتا اور داغ دھبوں کو صاف کرتا ہے۔ مصفی خون ہونے کے علاوہ لیموں قاتل جراثیم بھی ہے۔ اس کا استعمال تیزابی مادوں کو ختم کرتا ہے، صفراوی امراض کو تو لیموں تیر بہدف علاج ہے اور اسی وجہ سے ملیریا بخار میں مفید ہے۔ لیموں کا عرق گلاب میں ملا کر چہرے پر لگانے سے داغ دھبے صاف ہو جاتے ہیں، لیموں کی مالش چہرے کی جلد میں نکھار کرتی ہے۔ موسم برسات میں جب ذرا پیٹ بھر کر کھانا کھانے سے جی متلاتا ہے اور اسہال لگ جاتے ہیں تو ایسے میں لیموں کے رس کو پانی ملا کر پینا مفید تدبیر ہے۔ حاملہ عورتوں کو جی متلانے میں لیموں چوسنے کو دیا جاتا ہے۔ 

لیموں کے طبی استعمالات    
٭ چہرے کے داغ دھبوں کے لیے لیموں کے دو ٹکڑوں پر صابن اچھی طرح مل کر انہیں چہرے پر ملیں اور نیم گرم پانی سے منہ دھوئیں، حساس جلد والے احتیاط سے کام لیں۔ ان کے لیے بہتر ہے کہ لیموں کا رس برابر گلیسرین اور عرق گلاب ملا کر استعمال کریں۔ 

جگر اور تلی کے امراض:  
لیموں کے ٹکڑے کر کے ان پر نمک چھڑک کر ہلکا سا گرم کر کے دن میں چار پانچ بار چوسنا مفید ہے۔ 

دمہ:   
لیموں کا رس دن میں تین چار بار استعمال کرنا فائدہ مند ہے۔ 

ہیضہ:۔  
لیموں کے رس میں مویز منقی تر کر کے رکھیں اور پھر گھنٹہ بعد ایک مویز منقی کھا لیں اور لیموں کا رس تھوڑا سا پی لیں۔ 

خارش:   
لیموں کے استعمال کے ساتھ اس کے رس کی بدن پر مالش کریں، پھر اس رس کو جلد پر خشک ہونے دیں۔ 

لمبے کالے اور چمکیلے بال:  
لیموں کے عرق میں خشک آملے کا سفوف بنا کر ملا کر بالوں کی جڑوں میں لگانا فائدہ مند ہے۔ 

موٹاپا:   
موٹاپے کو ختم کرنے کے لیے آج کل سلمنگ سنٹروں کا زور ہے۔ اشتہاری لوگ موٹاپے کے نام پر بڑے بڑے اشتہارات کے ذریعے لوگوں کو خوب لوٹ رہے ہیں مگر کم لوگ جانتے ہیں کہ لیموں موٹاپے کے لیے شافی تدبیر ہے۔ مصر میں نوجوان لڑکیاں عموماً چھرئے اور نازک اندام بدن کی ہوتی ہیں جس کی وجہ ان کا لیموں کا استعمال کرنا ہے۔ موٹاپا دور کرنے اور اسمارٹ رہنے کے لیے صبح نہار منہ و سہ پہر آدھا آدھا لیموں کا رس نیم گرم پانی ایک گلاس پانی میں استعمال کرنا مفید ہے۔ البتہ لیموں کو استعمال سے قبل آگ پر ہلکا سا سینک لیا جائے، لیموں کے چھلکوں کو چہرے کے داغوں پر رگڑنا مفید ہے۔ 

نزلہ گرنا:  
یہ ایک ہٹیلا مرض ہے اور مشکل سے جاتا ہے۔ ماحولیاتی و فضائی آلودگی نے اس مرض میں بہت اضافہ کر دیا ہے۔ لوگ اس کو لا علاج خیال کرتے ہیں، ایسے حضرات صبح ایک لیموں، ایک گلاس پانی میں نچوڑ کر پی لیا کریں، فائدہ ہوگا۔

تیزابیت:  
سینے میں جلن، کمردرد، پیشاب میں جلن اور یورک ایسڈ کا بڑھ جانا اس کی علامات ہیں، ایسے میں صبح و شام لیموں کا استعمال مفید ہے۔ 

گنج:  
گنج کے لیے حسب ضرورت تھوڑے سے پانی کے ساتھ پیس کر اس کا لیپ روزانہ گنج کے مقام پر لگائیں‘ ایک ماہ تک استعمال کرنے سے فائدہ ہوگا۔ 

منہ خشک ہونا:  
لیموں کو تھوڑا سا چیر کر تھوڑی دیر بعد چوسنے سے پیاس بار بار لگنے اور منہ خشک ہونے کی صورت میں فائدہ ہوتا ہے۔

لیموں کا استعمال:  
لیموں کا عام استعمال کرنا یعنی کھانے کے ساتھ پیاز پر نچوڑ کر کھانا، خون کی کمی، بھوک میں اضافہ، دل گھبرانا، تیز دھڑکن، فساد خون کے امراض، کیل دانے، داغ دھبے، پھوڑے، پھنسیوں، مسوڑھوں کی سوجن، خون آنا، بدہضمی، جی متلانا میں فائدہ ہوتا ہے۔ 

لیموں کے مضر اثرات:  
ہر چیز میں اعتدال ہی مناسب راہ عمل ہے، اس طرح لیموں کا استعمال بھی اعتدال میں رہ کر کرنا چاہیے۔ لیموں کا تیز محلول دانتوں کے لیے مضر ہے، لیموں کے زیادہ استعمال سے پٹھوں میں درد ہو سکتا ہے۔ 

سکنجبین لیموں:  
لیموں کی سکنجبین بنا کر موسم برسات میں استعمال کی جاتی ہے جو موسمی تیزابیت، معدہ کی اصلاح اور صفرا کے لیے مفید ہے۔ یرقان میں اس کی دوائی استعمال ہوتی ہے اور اس موسم میں ہونے والے ملیریا بخار میں مفید ہے۔ موسم برسات میں مشروبات سے ہاتھ کھینچ لیا جاتا ہے، موسم میں نمی ہوتی ہے ایسے میں سکنجبین بہت مفید ہے، اس سکنجبین میں اپنی ضرورت کے مطابق چینی ملائی جا سکتی ہے۔
.
تحریر: جناب حکیم راحت نسیم سوہدروی

الرجی

جن چیزوں کو جدید تحقیقات سے موسوم کیا جاتا ہے ان میں ایک الرجی (ALLERGY) ہے۔ الرجی ایک ایلوپیتھی اصطلاح ہے جس کا اردو ترجمہ زود حسی کیا جا سکتا ہے۔ الرجی کسی فرد کو کسی خاص چیز سے حساسیّت ہے یعنی بعض لوگوں کو بعض چیزیں ناموافق ہوتی ہیں اور ان کے استعمال سے فائدہ کی بجائے نقصان ہوتا ہے۔ حالانکہ دیگر افراد کے لیے وہ کسی نقصان کا باعث نہیں ہوتیں اور ان چیزوں میں بھی کوئی خرابی نہیں ہوتی بلکہ یہی چیزیں دوسرے افراد کے لیے مفید ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر انڈا جو غذائیت سے بھرپور اور اکثر لوگوں کے لیے مفید ہے مگر بعض لوگوں کو انڈا کھانے سے دمہ کی سی کیفیت ہو جاتی ہے۔ اسی طرح تپ کا ہی جو زرگل سے حساسیت کے سبب ہو جاتا ہے اس کی مثال ہے۔ مزید ایگزیما، جسم پر دھپڑ، نزلہ، زکام، چھینکیں، سوجن و دیگر بہت سی شکایات الرجی کا نتیجہ ہو سکتی ہیں۔ الرجی جسم کے کسی بھی حصے پر اثر انداز ہو سکتی ہے، مثال کے طور پر ایک صاحب کو ائیر کنڈیشنر سے الرجی ہے، وہ باہر صحت مند رہتے ہیں مگر دفتر پہنچتے ہی ائیر کنڈیشنر کا ماحول ان کو نزلہ زکام میں گھیر لیتا ہے اور ناک سے پانی بہتا ہے۔ اسی طرح بہت سے لوگ جو سڑک پر آنے سے گردوغبار کے باعث چھینکوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور ناک سے پانی آنے لگتا ہے۔
الرجی کا ایک اور پہلو بھی ہے کہ ہم اکثر اوقات بعض ناپسندیدہ باتیں سننے پر مجبور ہوتے ہیں جس سے جسم میں اشتعال پیدا ہوتا ہے لیکن ہم اس ناپسندیدگی کا اظہار بھی نہیں کر سکتے۔ اس سے جسم میں گھٹن اور انتقامی جذبہ ابھرتا ہے اور ہیجان پیدا ہوتا ہے۔ اس سے جسم میں ہسٹامین (Histamine) نامی کیمیائی مادہ پیدا ہوتا ہے جو الرجی میں شدت کا باعث بنتا ہے اور آہستہ آہستہ ایسے لوگ اس قدر زود حِس ہو جاتے ہیں کہ معمولی سے معمولی بات الرجی کا باعث بن جاتی ہے۔ الرجی کو خلاف مزاج کے لفظ سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے جس طرح بعض لوگ کہتے ہیں کہ فلاں شے میرے موافق نہیں، یہی ناموافقت الرجی ہے۔ الرجی کی اصطلاح نے وباء کی سی صورت اختیار کر لی ہے اور اس کا موقع بہ موقع استعمال ماڈرن ہونے کا مظہر بن گیا ہے، کسی قسم کی تکلیف ہوئی فوراً کہہ دیا الرجی ہے، مگر یہ حقیقت ہے کہ الرجی الرجن یعنی حساسیت پیدا کرنے والی اشیاء کا ردعمل ہوتی ہے۔ الرجن ایسی اشیاء کو کہا جاتا ہے جن سے کوئی شخص حساس ہوتا ہے۔ عام الرجن میں مختلف اشیاء زرگل، حشراب الارض یعنی کیڑے مکوڑوں کا کاٹنا یا جلد پر ملا جانا، ان کے بال، بعض اشیاء کا استعمال یا ان کی خوشبو، گردوغبار کی دھونس، کیمیائی اجزائ، بعض دھاتیں اور بعض غذائیں جن میں انڈا، مچھلی، گوبھی، پالک اور آلو شامل ہیں۔ سب سے زیادہ عام الرجن مکانات کی گرد جو چادروں، پردوں، قالینوں میں ہوتی ہے اس سے حساس فرد کو چھینکیں شروع ہو جاتی ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی، فضائل آلودگی بھی عام الرجن ہے۔ کچھ لوگوں کو گرمی اور ٹھنڈک سے الرجی ہوتی ہے۔ جب ان کا ہاتھ ٹھنڈے یا گرم پانی میں جاتا ہے تو سوج جاتا ہے۔ الرجی ایک یا ایک سے زیادہ اشیاء سے بھی ہو سکتی ہے۔
بعض لوگ مختلف رنگوں سے الرجک ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر برطانیہ کی ملکہ الزبتھ سرخ رنگ سے الرجک تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ جس تقریب میں انہیں جانا ہو وہاں اس بات کا خیال رکھا جاتا تھا کہ کوئی چیز سرخ نہ ہو یہاں تک کہ گلاب کی سرخ پتیاں تک نچھاور نہ کی جائیں۔ 1960ء میں جب وہ پاکستان کے دورے پر آئیں تو جن راستوں سے ان کو گزرنا تھا ان راستوں سے سرخ عمارتوں کا رنگ تبدیل کر دیا گیا اور عوام سے اپیل کی گئی کہ وہ گلاب کی پتیاں نہ نچھاور کریں۔
الرجی سے ہمارا واسطہ مختلف ذرائع مثلاً غذا، سانس اور جلد کے ذریعے ہوتا ہے۔ الرجی کی علامات عام طور پر ان حصوں پر ظاہر ہوتی ہیں جو مرض سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں مثلاً زرگل کا زیادہ اثر ناک، آنکھ اور سانس کی نالی پر ہوتا ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء سے الرجی کی صورت میں ہونٹ سوج جاتے ہیں، معدہ خراب ہوتا ہے اور جسم پر دھپڑ بن جاتے ہیں۔ دھاتی اشیاء سے الرجی کی صورت میں جلد متاثر ہوتی ہے اور چکنے پڑ جاتے ہیں۔ اگر غذا میں الرجن شامل ہو جائے تو دمہ یا ایگزیما وغیرہ ہو جاتے ہیں۔ الرجی کی ایک صورت دھاتی زیورات ہیں، ایسی صورت میں جلد پر چھالے پڑ جاتے ہیں اور خارش ہوتی ہے۔ آنکھوں میں الرجی کی صورت میں آنکھوں کے سفیدے میں خارش اور جلن ہوتی ہے اور پانی بہتا ہے۔ الرجی کے مریض بچوں سے لے کر بوڑھوں تک سبھی ہوتے ہیں۔ بعض لوگ اسے نازک مزاجی کہہ کر ٹال دیتے ہیں مگر یہ ایک مرض ہے جو شاعری کی طرح انسان کے اندر پیدا ہوتا ہے۔ الرجی کا شکار لوگوں کو الرجک کہتے ہیں۔ 

اسباب:
اس کا جواب ہنوز نہیں مل سکا کہ بعض لوگوں کو بعض اشیاء سے الرجی کیوں ہوتی ہے تاہم اس حوالے سے جسم کا دفاعی نظام خاص کردار ادا کرتا ہے۔ یہ دفاعی نظام ضد اجسام (Anti Body) پیدا کرتا ہے اور بیرونی اجزاء سے مقابلہ کرتا ہے، اس کے علاوہ مختلف افراد میں وجوہ مختلف ہوتی ہیں۔

علاج:
(Anti Allergy) (انٹی الرجی) ادویہ وقتی سکون دیتی ہیں، یہ علاج نہیں بلکہ مرض سے سکون کی تدابیر ہیں۔ اصل حل یہ ہے کہ الرجن حساسیہ سے بچا جائے‘ اگر الرجی ہو جائے تو غذا کا تجزیہ کیا جائے، غذا میں حسائیت کے لیے معروف اشیاء ایک ایک کر کے ترک کر دیں، اس طرح اندازہ ہو جائے گا کہ کس چیز سے الرجی ہے۔
الرجی کا مرض آئے روز بڑھ رہا ہے اور اس کی بڑی وجہ نقص تغذئیہ، فضائی آلودگی، ذہنی دبائو کے باعث جسم کے مدافعتی نظام کا کمزور ہونا ہے۔ جسم کے مدافعتی نظام یعنی قوت حیات (Vital Forcer) کو مضبوط کیا جائے اور صحیح تدابیر اسی وقت ممکن ہیں جب الرجک کی الرجن کا صحیح اندازہ ہو جائے۔ نیز اس امر کی کوشش کی جائے کہ جسم کے ان اعضاء معدہ و جگر کی اصلاح کا اہتمام کیا جائے جو کسی چیز کو صحیح قبول نہیں کرتے اور الرجی ہو جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ان اشیاء میں کوئی نقص نہیں ہوتا بلکہ جسم میں ایسا کوئی نقص ہوتا ہے جس سے الرجی ہوتی ہے۔
.
تحریر: جناب حکیم راحت نسیم سوھدروی

ملٹھی ... ایک لا جواب دوا

ملٹھی طب میں صدیوں سے مختلف مقاصد کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ اسے پیٹ کے امراض خصوصاً معدے اور آنت کے زخم (السر) کے لیے بہت مفید خیال کیا جاتا ہے۔ یہ کھانسی کا بھی ایک آزمودہ روایتی علاج ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب موسم سرما  میں شدت کی سردی ہوتی ہے تو خشک اور سرد ہواؤں کی وجہ سے گلے میں خراش اور کھانسی ہونے لگتی ہے تو ملٹھی کا سفوف پان میں ملا کر اس کی پیک کو نگل لیا جاتا ہے۔ ملٹھی کا اصل جز گلائی کون کہلاتا ہے۔ جب کہ طب میں اس کا ست رُبّ کہلاتا ہے۔ اس لیے یہ ست رُبّ السوس کہلاتا ہے۔ کھانسی کے لیے یہ بہت مفید ہے‘ اس لیے یہ ست کھانسی کے شربت میں خوب استعمال ہوتا ہے۔ یہ حلق کو تر اور نرم کرتی اور بلغم کا اخراج کرتی ہے۔
ملٹھی کو عربی زبان میں اصل السوس‘ سندھی میں مٹھی کاٹھی یعنی میٹھی لکڑی‘ فارسی میں بیخ مہک جبکہ انگریزی میں لکورس (Licorice) کہا جاتا ہے۔ یہ ایک پودے کی جڑ ہے جو زمین میں گہرائی کے ساتھ ہوتی ہے۔ اس کا پودا چار فٹ تک بلند ہوتا ہے۔ جبکہ اس کے پھول نیلے رنگ کے ہوتے ہیں اور رومی آب وہوا کے خطے میں  پیدا ہوتا ہے۔ اس کی زرد رنگ جڑ شکر سے پچاس گنا زیادہ میٹھی ہوتی ہے۔ چین‘ روس اور بحیرہ روم کے ممالک میں اس کی کاشت طویل عرصے سے ہو رہی ہے۔ اسپین میں اس کا ست تیار کیا جاتا ہے جسے عمدہ خیال کیا جاتا ہے۔ اب فیصل آباد میں بھی اس کی کاشت ہو رہی ہے۔ یورپ‘ چین اور انگلستان میں بھی اس کا استعمال بہت زیادہ ہوتا ہے۔ ان ممالک میں ملٹھی کا سفوف دیگر ادویات کے ساتھ ملا کر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سے نہ صرف معدہ اور دانتوں کی سوزش اور زخم دور ہوتے ہیں بلکہ آنتوں کی حرکت تیز ہو کر قبض ختم ہوتی ہے۔ چین میں اس کا شمار بہت مؤثر نباتاتی اور ادویہ میں ہوتا ہے۔ ماہرین طب اسے گلے کی خراش اور کھانسی کے لیے استعمال کرتے آ رہے ہیں۔ چین کے شمالی علاقوں میں ملٹھی اور اس کے مرکبات کو مفید شباب آور ٹانک سمجھتے ہیں۔
طب یونانی میں ملٹھی کا استعمال صدیوں سے ہو رہا ہے۔ طب یونانی کے ماہرین اسے استعمال کرنے سے قبل چھیلنے کی ہدایت کرتے ہیں کیونکہ اس کے مطابق سانپ اس پر اپنا پھن رگڑتا ہے۔ اسے چھیل کر استعمال کرنے سے گویا اوپر کی چھال اتر جاتی ہے اور اس طرح اس کے زہر آلود ہونے کا خطرہ ٹل جاتا ہے۔ ملٹھی کا ذائقہ میٹھا بلکہ بہت میٹھا ہوتا ہے۔ اسے بہ طور مٹھاس زیادہ مقدار میں استعمال نہیں کرنا چاہیے‘ اس کی یہ مٹھاس گلیسرہیزین نامی جوہر کی وجہ سے ہے۔ جڑ میں یہ مٹھاس چھ سے آٹھ فیصد تک ہوتا ہے اور الگ کرنے پر سفید چمک دار سفوف کی صورت میں نکلتا ہے۔ اس سفوف میں کیلشیم اور گلیسرہیزک ایسڈ‘ پوٹاشیم اور نمک موجود ہوتا ہے۔ ملٹھی میں شکر‘ نشاستہ ۲۹ فیصد گوند پروٹین اور چکنائی کے علاوہ ٹے نین بھی ہوتا ہے جو زیادہ تر جڑ کی چھال میں ہوتا ہے۔ اس میں فراری تیل کے علاوہ زرد رنگین مادہ بھی ہوتا ہے۔
طب واطباء کے نزدیک ملٹھی مسکن‘ ملین یعنی سکون آور‘ قبض کشا اور پیشاب آور خصوصیت کی حامل ہے۔ کھانسی میں اس کا استعمال بہت مفید ہے۔ یہ بلغم کو اعتدال کے ساتھ پتلا کر کے اخراج کرتی ہے۔ عضلات پٹھوں کو مضبوط بناتی ہے اور حلق کی خشکی دور کر کے تر کرتی ہے۔ سینے سے بلغم کا اخراج کرتی ہے۔
کئی مغربی ممالک میں اسے گلے کی خراش اور کھانسی کے لیے السی کے ساتھ جوش دے کر بطور چائے پیا جاتا ہے۔ یورپ میں نباتاتی علاج کے معالج اسے آنتوں کی سوزش اور زخم کے ساتھ بطور پیشاب آور استعمال کرتے ہیں اور نزلی رطوبت کے اخراج کے لیے مفید خیال کرتے ہیں۔ لندن (انگلستان) کے معروف نباتاتی معالج ڈاکٹر میلون کا یہ نسخہ کھانسی کے لیے بہت شہرت رکھتا ہے۔
السی کے بیج        ۱۲ گرام
ملٹھی        ۲۵ گرام
عمدہ کشمش        ۱۲۰ گرام
اور تازہ پانی        ۲ لیٹر
تمام اجزاء پانی میں ڈال کر دھیمی آنچ پر ڈھک کر اتنا پکائیں کہ پانی کی مقدار نصف رہ جائے‘ اب اس میں اچھی قسم کا گڑ ۵۰۰ گرام شامل کر کے چھان کر قوام درست کر لیں۔ رات سونے سے قبل ایک پیالی گرم پانی میں یہ شربت چار چمچے ملا کر تھوڑا تھوڑا چسکی لے کر پئیں۔ کھانسی کی شکایت رفع ہو جائے گی۔
ایک امریکی نباتاتی معالج ڈاکٹر جیمس ڈیوک کے مطابق ملٹھی میں معدے اور آنتوں کے زخم ٹھیک کرنے کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ سرطان دور کرنے کی بھی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ امریکہ کے سرطان پر تحقیقی ادارے بھی ملٹھی کو اپنی تحقیق میں شامل کر رکھا ہے۔ اب تک کی تحقیق کے مطابق اس کا اہم جز ٹرائی رٹر پناڈز (Reritependids) سرطان کا مفید علاج ثابت ہو سکتا ہے۔ کیونکہ یہ جسم میں پروسٹاگلینڈین کی تیاری کا سلسلہ روک دیتے ہیں۔ پروسٹاگلینڈین ہارمون جیسے شحیمی الیڈ (Fatty Acid) ہوتے ہیں جو سرطانی خلیات بننے کا عمل تیز کر دیتے ہیں۔ ملٹھی کا جز جسم پر سرطان کا سبب بننے والے اجزا کا حملہ روک سکتے ہیں۔ تحقیق کے نتیجے میں ان اجزاء کی ان خاصیتوں کا اندازہ ہوا ہے۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملٹھی کا استعمال کم مقدار میں کرنا چاہیے۔ خصوصا بلڈ پریشر کے مریضوں کو اس کے استعمال سے قبل اپنے معالج سے مشورہ کرنا چاہیے۔ کیونکہ اس کا زیادہ استعمال بلڈ پریشر اور قلب کے امراض میں مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ کیونکہ ملٹھی میں تحقیق کاروں کے مطابق کیمیائی جوہرگلیسرہیزن کی زیادتی سے جسم میں پوٹاشیم کی مقدار کم اور سوڈیم کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ اس لیے پوٹاشیم کم ہونے سے بلڈ پریشر میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
استاد محترم شہید پاکستان حکیم محمد سعید معدے اور آنتوں کے زخم کے لیے اصل السوس سائیدہ ہمراہ شربت بادیان دو چمچ صبح نہار منہ استعمال کراتے تھے اور اس کے مفید نتائج سامنے آئے۔ اس کے بعد اسے سوسی کے مرکب کے نام سے ہمدرد نے بنایا ہے جو شربت بادیان کے ساتھ صبح نہار منہ استعمال سے فائدہ مند ہے۔
.
تحریر:  جناب حکیم راحت نسیم سوھدروی

جلد .... انسانی صحت کا آئینہ ہوتی ہے

ہماری جلد (Skin) ہماری صحت کا آئینہ ہے۔ اس سے ہی صحت کے درست ہونے کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ سرخ گال، نرم چمک دار اور صاف شفاف جلد ہماری صحت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جلد سے انسانی شخصیت کا وقار، چمک دمک اور سنگھار کا گہرا تعلق ہے۔ میلی، پژمردہ، جھریوں بھری جلد صحت و توانائی کی کمی کی کہانی بیان کرتی ہے۔ خاص طور پر چہرہ کی جلد کا ہماری صحت سے بہت گہرا تعلق ہے۔ طب و صحت کے ماہرین مریض کے چہرے کی رنگت دیکھ کر مرض کی نوعیت اور شدت کا اندازہ کر لیتے ہیں۔ یہ محاورہ عام طور پر بولا جاتا ہے کہ مریض کی رنگت زرد پڑ گئی ہے۔ جلد بعض خاص علامت کو ظاہر کرتی ہے مثلاً اس کا پیلا پن، نیل گوں یا سفید ہو جانا حالت مرض کو بیان کرتا ہے۔ بوڑھے لوگوں میں چہرے اور ہاتھوں پر جھریاں پڑ جاتی ہیں جو ان کے بڑھاپے کو ظاہر کرتی ہیں۔ جلد اور رنگت کی ساخت سے عمر کا اندازہ لگانا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ چہرے کی جلد کے نکھار کے لئے ہر دور میں جتن ہوئے ہیں۔ سنگھار کا مقصد چہرے کی جلد اور کشش میں اضافہ ہے۔ ہر شخص کی آرزو ہوتی ہے کہ وہ چہرے کی جلد نکھارے اور حسن و کشش کو محفوظ رکھے۔ جلد صحت مند، خوبصورت اور نکھار والی ہو تو عمر کا بھی اندازہ نہیں ہوتا بلکہ انسان اپنی عمر سے بھی کم عمر نظر آتا ہے۔ جو لوگ جلد کی حفاظت نہیں کرتے وہ حسن و دلکشی سے محروم ہو جاتے ہیں۔ دنیا کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک امریکہ میں عوام کی بہت بڑی اکثریت سب سے زیادہ جلد کی آرائش و زیبائش کی طرف توجہ دیتی ہے مگر وہ اس لئے ناکام ہیں کہ وہ فطری طرز اختیار کرنے کی بجائے مصنوعی طریقوں سے حسن و کشش حاصل کرنے کے لیے فوڈ اسکن اور کریموں کا استعمال کرتے ہیں۔ جلد ہمارے جسم کی کھال ہے، جسے جسم کا غلاف بھی کہا جا سکتا ہے جو جسم کا سب سے بڑا عضو ہے۔ جس کا رقبہ 17 مربع فٹ اور وزن تقریباً 5سے 6 پونڈ تک ہوتا ہے۔ یہ پتلی ہونے کے سبب بہت ہلکی لگتی ہے۔ لیکن یہ ایک ایسی مستحکم دیوار ہے جو ہمیں بقیہ دنیا سے الگ رکھتی ہے۔ یہ ایک بند تھیلا ہے جو ان رسوں اور مادوں سے بھرا پڑا ہے جس سے ہماری ذات کی تشکیل ہوتی ہے۔ ہم اسے جسم کی حفاظتی خندق کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ جلد کا سب سے اہم کام جسم کے قلعہ میں سیال مادوں کا تحفظ اور بیرونی مضر اشیاء کو اندر جانے سے روکنا ہے۔ یہ کیڑوں، زہروں اور جراثیم کو اندر داخل ہونے سے روکتی ہے اور جسم کے پانی کو کنٹرول کرتی ہے۔ یہ جسم کی بہت حساس سرحد ہے۔ اس کے نیچے انتہائی پیچیدہ اعصابی نظام کام کرتا ہے جو دبائو، درد، سردی اور گرمی کی خبر دماغ کو پہنچاتا ہے۔ ناخن اور بال بھی اس کا حصہ ہیں۔ ہمارے بال ہماری جلد میں پوشید چھوٹی چھوٹی فیکٹریوں کی پیداوار ہیں۔ جنہیں ہم اصطلاحاً بالوں کے غدود کہہ سکتے ہیں اور ہر غدود ایک بال تیار کرتا ہے۔ آپ اپنے ہاتھ کی پشت پر اُگے ہوئے بالوں کے سروں کو بس ذرا چھو لیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ کس قدر حساس ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر بال کی جڑ میں کئی نازک اعصابی سرے موجود ہیں۔ بالوں کی جڑوں میں بعض غدود روغنی ہوتے ہیں جس سے بال چکنے رہتے ہیں۔ یہ روغن انہی کے ذریعے جب جلد پر آتا ہے تو جلد چکنی ہو جاتی ہے۔ جلد کا ایک اہم کام چھونے کا احساس فراہم کرنا ہے۔ جلد میں پوشیدہ اعصاب جس کے ننھے ننھے سرے مختلف قسم کے پیغامات ہمارے دماغ کو پہنچاتے ہیں۔ اس طرح اس کا ایک تیسرا اہم کام جسم کے درجہ حرارت کو کنٹرول کرنا ہے۔ جلد یہ کام اپنی نچلی سطح میں واقع خون کی رگوں اور نالیوں کو حسب ضرورت پھیلا کر یا انہیں سکیڑ کر انجام دیتی ہے۔ ہماری جلد کے اندر چربی کی تہہ کے نیچے رگوں، نالیوں اور عروق شعریہ کا وسیع جال ہے۔ یہ ایک نظام کے ذریعے سے خون کی ایک بڑی مقدار جلد کے نیچے بوقت ضرورت گشت کر کے جلد کی سطح کو سرد رکھتی ہے۔
جب یہ نظام سکڑتا ہے تو پھر پوری جلد میں دو اونس خون فی منٹ کے حساب سے گردش کرتا ہے اور رگوں کے پھیلنے کی صورت میں گردش میں سو گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ فطرت نے ضرورت سے زیادہ خون کو سرد کرنے کے لیے بھی نظام وضع کر رکھا ہے۔ جس کے تحت جب گرم خون رگوں کے پھندے میں رُکتا ہے تو جلد پر آنے والا پسینہ ہوا میں تحلیل اور ٹھنڈا ہو کر جلد کو سرد کر دیتا ہے۔ اس سارے نظام کو دماغ میں موجود ایک مرکز جو مٹر کے دانے برابر ہے کنٹرول کرتا ہے۔ یہ لوتھڑا تین اعصابی مراکز کو کنٹرول کرتا ہے۔ ان میں سے ایک حرارت کو محسوس کرتا ہے۔ دوسرا حرارت کا اخراج کرتا اور تیسرا حرارت میں اضافہ کرتا ہے۔ حرارت کی کمی یا اخراج کا مرکز جب جلد کو پھیلنے کا حکم دیتا ہے تو اس کی وجہ سے رگیں پھیل جاتی ہیں۔ پسینہ خارج ہونے لگتا ہے اور اعصابی تنائو میں کمی ہو جاتی ہے۔ جب یہ مرکز رگوں کو سکڑنے کا حکم دیتا ہے تو کپکپاہٹ شروع ہو کر پسینہ ختم ہو جاتا ہے اور استحالہ جسم Metabolism میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
ہماری جلد تین پرتوں پر مشتمل ہے۔ بیرونی، حقیقی اور اندرونی۔ بیرونی سطح پر تین پرتیں ہوتی ہیں‘ اوپری کھردری پرت جس کے مردہ خلیات جھڑتے رہتے ہیں اور نئے بنتے رہتے ہیں۔ اس کے نیچے حقیقی جلد ہوتی ہے جو مضبوط ریشوں اور زندہ خلیات پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس میں خون کی لاکھوں باریک رگیں، لمفاوی غدود یا اعصابی سرے ہوتے ہیں۔ پسینے کے غدود کی تعداد دو سے تین تک ہوتی ہے۔ ان کی سب سے زیادہ تعداد بغل، ہاتھوں، پیروں اور پیشانی پر ہوتی ہے۔ یہ غدود خون کی باریک نالیوں سے پانی، نمک اور ردی مواد کھینچ کر مسامات کے راستے بیرونی سطح پر جمع کرتے ہیں جسے ہم پسینہ کہتے ہیں۔ گرمی میں یہی پسینہ ہوا سے خشک ہو کر ٹھنڈک کا احساس دیتا ہے اور اس طرح جسم کا درجہ حرارت خطرناک حد تک نہیں پہنچتا۔
جلد ایک انتہائی حساس عضو ہے‘ اس کی حفاظت ہمارے لئے ضروری ہے۔ اس سے نہ صرف صحت کی بقا ہے بلکہ انسانی شخصیت کی وجاہت اور چمک دمک کا بھی تعلق ہے۔ میلی کچیلی، جھریوں سے بھرپور جلد صحت و توانائی کی کمی کی داستان بیان کرتی ہے۔ خصوصاً چہرے کی جلد کا انسانی شخصیت سے بہت گہرا تعلق ہے۔ اس لئے انسان ہمیشہ چہرے کی جلد پر متوجہ رہا ہے۔ سنگھار کا مقصد چہرے کی جلد کو شاداب اور خوبصورت بنانا ہے۔ چہرہ کی خوبصورت جلد انسان کو کم عمر ظاہر کرتی ہے۔ جو لوگ جلد کی حفاظت نہیں کرتے وہ حسن و کشش سے محروم ہو جاتے ہیں۔ جلد کی حفاظت کا پہلا اصول یہ ہے کہ آپ فطرت کے قریب زندگی گزارئیے۔ کھلی اور آزاد فضا میں ہلکی پھلکی ورزش یا سیر کریں۔
متوازن غذا استعمال کریں‘ فطرت کی عطا کردہ نعمتوں سے فائدہ اٹھائیے۔ دودھ، پھل اور سبزیاں اپنی غذائوں میں زیادہ رکھیں۔ تمباکو، نشہ اور اشیائ، روغنی اور چکنائی دار اشیاء کا استعمال توازن سے کریں۔ جلد کو کم سے کم چھیڑا جائے اور اس کی صفائی کا اہتمام کیا جائے۔ آج کل صابن کا استعمال لازمی خیال کیا جاتا ہے حالانکہ یہ مضر ہے، خصوصاً خوشبودار اور تیز صابن جن میں کیمیائی اجزاء ہوتے ہیں۔ لوگ جھاگ بنا کر دیر تک ملتے رہتے ہیں جس سے جھاگ جلد میں پہنچ کر نقصان کا سبب ہوتی ہے۔ مناسب راہ عمل یہ ہے کہ صابن لگا کر منہ دھویا جائے، رگڑا نہ جائے۔ اگر جلد خشک ہے تو گلیسرین کا استعمال کیا جائے۔ پانچ وقت وضو میں منہ دھونا مفید ہے۔
آج کل بازار میں جلدی غذا/ اسکن فوڈ کے نام سے ادویہ ملتی ہیں لوگ خیال کرتے ہیں۔ اس سے جلد کو غذا ملتی ہے ایسا بالکل غلط ہے بلکہ ہم جو غذا کھاتے ہیں اس سے جلد کو غذا ملتی ہے۔ جلد کو صحت مند رکھنے کے لیے شہد، دودھ، پھل، سبزیاں، معدنی اجزاء اور حیاتین کا استعمال کریں۔ کیپسولوں اور گولیوں میں بند غذا سے جلد کی حفاظت نہیں ہوتی بلکہ قدرتی غذاء کا سہارا لیں۔ فائبر (Fiber) ریشہ دار چیزیں آنتوں کو صاف کرتی ہیں اور گندہ فاسد خون صاف کرتی ہیں۔ جس سے جلد صاف اور شفاف ہوتی ہے خواتین کی طرح مردوں کو بھی جلد کی حفاظت کرنی چاہیے۔ استرے یا بلیڈ کے استعمال سے اوپری جلد اُترنے لگتی ہے۔ اگرچہ داڑھی صاف کرنے کا رواج زمانہ قدیم سے ہے مگر قدیم مصری خاص قسم کی کریم استعمال کرتے تھے۔ اگر جلد سکڑی یا خشک ہو تو یہ موسم کا اثر ہوتا ہے۔ موسمی شدت خصوصاً شدید سردی اور گرمی میں ایسا ہو جاتا ہے۔ دھوپ جلد کے لیے مفید ہے مگر ایک خاص حد تک۔ ضرورت سے زیادہ دھوپ میں بیٹھنا مضر جلد ہے۔ رنگت اور رعنائی کو ختم کرتی ہے، اندرونی ریشے لچک ختم کر دیتے ہیں۔ زیر جلد خون کی رگوں پر منفی اثر ہوتا ہے۔ گرم ممالک کے لوگ زیادہ دھوپ سے محفوظ رہنے کے لیے چہروں پر کپڑے ڈالے رہتے ہیں اور چہرے گرم تھپیڑوں سے محفوظ رہتے ہیں۔ جب ہوا میں نمی کا تناسب کم ہو یعنی جن دنوں خشک سردی ہوتی ہے تو جلد خشک اور جب بارش کے بعد ہوا میں نمی کا تناسب زیادہ ہو تو جلد چکنی ہو جاتی ہے۔ ہماری جلد کے اندر کچھ غدود تیل بناتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں جلد کو پھٹنے سے بچانے کے لیے بنایا ہے، جن کی جلد چکنی ہو اُن کو ان غدودوں کی سرگرمی کو کم کرنے کے لیے فالج سے مشورہ کرنا چاہیے۔ اگر ہم مندرجہ بالا تدابیر پر عمل کریں تو اپنی جلد جو آئینہ صحت بھی ہے اسے درست اور صحت مند رکھ کر پورے جسم کو صحت و توانا رکھ سکتے ہیں۔
.
تحریر:  حکیم راحت نسیم سوہدروی